Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

پروین شاکر، خوشبوؤں کی شاعرہ

آپ نے کسی شاعرہ کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے کوئی تحریری امتحان دیا ہو اور اس امتحان میں ان کے اپنے بارے میں ہی سوال پوچھا گیا ہو؟ جی ہاں، ایسا پاکستان کی ایک مشہور شاعرہ پروین شاکر کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے انیس سو بیاسی میں سینٹرل سُپیریئر سروسز یعنی سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا۔ نو برسوں تک استاد رہنے کے بعد پروین شاکر سول سروسز میں منتخب ہو گئیں اور انہیں محکمہ کسٹم میں نوکری دی گئی۔ پروین شاکر کی شاعری میں ایک نسل کی نمائندگی ہوتی ہے اور ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ عورت رہی ہے۔ فہمیدہ ریاض کہتی ہیں، پروین شاکر کے اشعار میں لوک گیت کی سادگی اور کلاسیکی موسیقی کی نزاکت بھی ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں بھولے پن اور نفاست کا دل آویز سنگم ہیں۔

انیس سو ستتر میں ان کا پہلا شاعری مجموعہ ’خوشبو‘ شائع ہوا جس کے دیباچے میں انہوں نے لکھا تھا ’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چُوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔‘ ان کے اشعار کو غور سے پڑھنے پر احساس ہوتا ہے کہ اس میں سے اکثر آب بیتی ہے۔ زندگی کے مختلف موڑوں کو انہوں نے ایک ربط دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اشعار میں ایک لڑکی کو بیوی، ماں اور آخر میں ایک عورت تک کے سفر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بیوی کے ساتھ ساتھ ماں بھی تھیں، شاعرہ بھی اور روزی روٹی کمانے کی ذمہ دار بھی۔

انہوں نے ازدواجی محبت کو جتنے مختلف پہلوؤں سے چھوا اتنا کوئی مرد شاعر اگر چاہے بھی تو نہیں چھو سکتا۔ ماں بننے کے تجربے پر تو خواتین شاعروں نے لکھا ہے لیکن باپ بننے کے احساس پر کسی مرد شاعر کی نظر نہیں پڑی ہے۔ ایک نظم میں پروین شاکر نے اپنے جوان بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ انہیں اس بات پر شرم نہیں آنی چاہیے کہ آپ ایک شاعرہ کے بیٹے کے طور پر معروف ہیں نہ کہ ایک والد کے بیٹے کے طور پر۔ اکیسویں صدی کے بچوں کے شعور پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں۔

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
شعروں میں ان کی زبان سادہ ہو یا ادبی لیکن ان کی شاعری میں صبر و تحمل کو کافی ترجیح دی گئی ہے۔ ان کے اشعار سے فیض اور فراز کی جھلک ضرور ملتی ہے لیکن انہوں نے ان کی نقل نہیں کی۔ انہوں نے پہلے انگریزی اور پھر بینک مینیجمنٹ میں ایم اے کیا اور اس کے بعد انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے نصیر علی نامی شخص سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائی۔

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر نے شروع میں ’بنی‘ کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی ان کے استاد تھے اور انہیں وہ ’اموجان‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ پروین شاکر اس دنیا میں صرف بیالیس سال تک رہ سکیں۔ چھبیس دسمبر انیس سو چوراسی کو جب وہ اپنی کار میں دفتر جا رہی تھیں تو ایک بس نے انہیں ٹکر مار دی۔ اسلام آباد کی جس سڑک پر ان کا حادثہ ہوا، اس سڑک کو انہیں کا نام دیا گیا ہے۔

ریحان فضل

بشکریہ بی بی سی ہندی، دلی
 

Post a Comment

0 Comments