اکتیس اگست 1919 کو پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی امرتا پریتم ایک بھارتی شاعرہ اور ناول نگار تھیں، ان کی سو سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین بھی شامل ہیں۔ امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت ظلم و جبر سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی ہو ئی نظرآتی ہے۔ امرتا پریتم کی آخری کتاب’ میں تمہیں پھر ملوں گی‘ نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر 9 سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔
ان کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش، مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں سے بھی امرتا پریتم کی گہری دوستی تھی۔ امرتا بھارتی ایوانِ بالا کی رکن بھی رہیں اور انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات بھی حاصل ہوئے جن میں پنجابی ادب کے لیے گیان پیتھ ایوارڈ بھی شامل ہے ۔ امرتا پریتم کی سب سے شہرہ آفاق نظم ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ ہے، جس میں انہوں نے تقسیم ہند کے دوران ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھا ہے۔
پنجاب کی تقسیم دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس کے باعث پنجاب دھرتی کے چپے چپے پر انسانی خون بہا۔ دس لاکھ سے زائد لوگ قتل ، ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر 70 ہزا ر عورتین اغوا ہوئیں جن میں سے 50 ہزار کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے ظلم پر امرتا پریتم نے پنجابی کے مشہور صوفی شاعر وارث شاہ کو مخاطب کر کے اپنی یہ نظم لکھی۔ جو ہر پنجابی سمیت انسانیت سے پیار کرنے والے ہر شخص کے دل کی آواز بن گئی ۔ امرتا پریتم کا 86 سال کی عمر میں 31 اکتوبر 2005ء میں انتقال ہوا۔
0 Comments