جب ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا تو کچھ لوگ وثوق سے دعویٰ کرتے تھے کہ یہ نصابی کتب کی جگہ لے لے گا۔ دوسرے اس امر سے پریشان رہتے کہ بچے پڑھنے کے بجائے ٹیلی ویژن دیکھا کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ پڑھائی اب بھی جاری ہے اور سکولوں میں ٹیلی ویژن کی حیثیت معاون ٹیکنالوجی کی سی ہے۔ لیکن آج پھر سوال کیا جا رہا ہے، کیا پڑھائی یا مطالعہ قصۂ پارینہ بن جائے گا؟ ٹیلی ویژن کے باعث نہیں بلکہ پوڈکاسٹس، آڈیو بکس اور ’’ٹیکسٹ ٹو سپیچ‘‘ کے سافٹ وئیر میں بہتری کے سبب، جو اب ورلڈ پروسیسرز، ویب براؤزرز اور تقریباً تمام ’’ای بکس‘‘ کا حصہ ہے۔
انٹرنیٹ کی وجہ سے معلوماتی اور نصابی تحریروں کے علاوہ تفریحی مواد ڈیجیٹل فارمیٹ میں زیادہ دستیاب ہونے لگا ہے۔ چونکہ اب کم و بیش تمام ڈیجیٹل ٹیکسٹ کو سننا ممکن ہے، تو کیا پڑھنا بالآخر متروک ہو جائے گا ؟ جب سنا جا سکتا ہے تو کیا پڑھنا غیر ضروری نہیں ہو جائے گا؟ کیا پڑھنا اور سننا محض دماغ میں لفظوں کو لانے کے دو مختلف طریقے نہیں ہیں تاکہ ان کے بارے میں غوروفکر کیا جا سکے؟ یا کیا تحریر کو پڑھنا سننے سے بہتر نہیں؟ جواب سادگی سے ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ پڑھ کون رہا ہے، کیوں پڑھ رہا ہے، اور کیا پڑھ رہا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق سننے اور پڑھنے سے تحریر کا فہم کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے۔ چند دہائیاں قبل کالج کے طلبا پر ہونے والی تحقیق سے نتیجہ نکلا کہ افسانہ سننے والے اس کا خلاصہ اسی طرح تیار کر سکتے ہیں جس طرح پڑھنے والے۔ جبکہ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے بھی یہی نتائج برآمد ہوئے۔ اس تحقیق کے مطابق بالغ افراد پڑھیں یا سنیں، حقیقی زندگی کی داستانوں پر مبنی تحریروں کا فہم اور یادداشت ایک جیسے ہوتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ زیادہ تر افسانوں اور ہلکی پھلکی تحریروں کے لیے سننا اتنا ہی مؤثر ہے جتنا پڑھنا۔ تحریر پڑھنے کے بجائے سننا بعض اوقات یقینا زیادہ مفید ہوتا ہے۔
سب سے واضح فائدہ یہ ہے کہ تحریر سنتے وقت آپ ہاتھوں اور آنکھوں سے کچھ اور بھی کر سکتے ہیں، بالخصوص روزمرہ کے کام، جیسا کہ برتن صاف کرنا، ورزش کرنا یا ڈرائیونگ کرنا۔ غالباً اسی لیے آڈیو بکس اور پوڈکاسٹس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 18 فیصد امریکیوں نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ برس کم از کم ایک آڈیو بک سنی اور پہلی بار 50 فیصد سے زائد امریکیوں نے کہا کہ انہوں پہلی بار پوڈکاسٹ کو سنا۔ پڑھنے کی نسبت تحریر سننے کا ایک اور فائدہ ہے ۔ اچھے پڑھنے والے طرز کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی ایکسپریشنز کے ساتھ۔ یہ بعض اوقات سننے والوں کے لیے بھی مدد گار ہوتا ہے یعنی تحریر میں انوکھے الفاظ کو انوکھے انداز میں سننا۔
مثال کے طور پر شیکسپیئر کی بعض سطور کو اگر کوئی اچھا اداکار طرز کے ساتھ بلند آواز میں پڑھے تو سننے والے کو ان کے معنی زیادہ واضح ہوں گے، بہ نسبت پڑھنے کے۔ شائع شدہ الفاظ پر نظر دوڑانے کی نسبت شاعری کو باآواز پڑھنے سے اس کے علامتی اور جذباتی معانی بہتر طور پر اخذ ہوتے ہیں۔ نیز معذور اور جنہیں کم مواقع میسر آتے ہیں، کتب سننے سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نابینا افراد کے لیے اب کتب کا بہت بڑا ذخیرہ میسر ہے۔ تاہم سننا ہمیشہ پڑھنے جتنا مؤثر نہیں ہوتا۔ سننے کی نسبت پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں، خاص طور پر معلوماتی تحریروں کو پڑھنے کے۔ سنتے ہوئے آپ جلدی نہیں کر سکتے۔
آج کل جب معلومات کا بہاؤ بہت زیادہ ہے کچھ حصوں پر سرسری نظر ڈالنی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حصہ پیچیدہ ہے تو سنتے ہوئے اسے پلٹ کر دوبارہ سننا مشکل ہوتا ہے۔ مطالعہ کے دوران نوٹس لینا، ہائی لائٹ کرنا اور حوالے دیکھنا زیادہ ممکن ہے۔ سنتے ہوئے ایسا کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ پوسٹ کاسٹر اور آڈیو بک میں بولنے والے 150-160 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے بولتے ہیں۔ جبکہ ماہر پڑھنے والے ایک منٹ میں 300 سے 400 الفاظ پڑھ لیتے ہیں جو کہ تقریباً دگنی رفتار ہے۔ کم رفتار سننے والوں کی توجہ ادھر اُدھر کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، چونکہ دوسرے کام بھی کیے جا سکتے ہیں، اس لیے توجہ بٹ جاتی ہے۔
گزشتہ برس کالج کے طلبا پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ نصابی کتب پڑھنے والے سننے والوں کی نسبت سبق کو بہتر بیان کر سکتے ہیں۔ یہ بات انگریزی زبان سیکھنے کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی سچ تھی۔ ان تمام وجوہات کی بنا کر پڑھنا متروک نہیں ہو گا، تاہم سننا جدید زندگی کا اہم حصہ ضرور بن جائے گا۔ تعلیم میں ہمیں پڑھنے سے سننے کی جانب رخ کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔ اسی طرح اپنی پسندیدہ تحریروں کو کھانا پکاتے یا ڈرائیونگ کرتے سن بھی لینا چاہیے۔
0 Comments