Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ہاسٹل : لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں

ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران میں جو کالج میں گزارنی پڑی، ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔ خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور پر مبارکباد دینے کے لیے آئے۔ قریبی رشتہ داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بیکار اور نالائق فرزند سمجھتے رہے تھے، دراصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے، جس کی نشوونما پر بے شمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ 

چنانچہ ہماری آئندہ زندگی کے متعلق طرح طرح کی تجویزوں پر غور کیا جانے لگا۔ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اس لیے وظیفے کا نہ ملنا خصوصاً ان رشتہ داروں کے لیے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخر و مباہات کا باعث بن گیا۔ اور ’’مرکزی رشتے داروں‘‘ نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت و نجابت کو بے انتہا سراہا۔ بہرحال ہمارے خاندان میں فالتو روپے کی بہتات تھی۔ اس لیے بلا تکلف یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک و قوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔ 

اس بارے میں ہم سے بھی مشورہ کیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی لیکن اب تو حالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیرجانبدار اور ایماندار منصف یعنی یونیورسٹی ہماری بیدار مغزی کی تصدیق کر چکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیونکہ نظرانداز کیا جا سکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں سے یہ ثابت کیا کہ ملک کا طریقہ تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیسیں دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف و تالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام غرض یہ کہ بے شمار مفید اور کم خرچ بالا نشیں پیشے سیکھے جا سکتے ہیں۔ 

اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہر فن مولا بن سکتا ہے۔ لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کر دیا گیا۔ کیونکہ ولایت بھیجنے کے لیے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گرد و نواح میں کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈ ماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔ جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لیکن جب ادھر اُدھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ 

بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چنانچہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہو گیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے حد موزوں اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کر دیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی، لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبیعت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے۔ اور فطرت اپنا کام حسن و خوبی کے ساتھ کر سکے۔ لیکن تحصیلدار صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔

 اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔ لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کر دیا۔ اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کر کے ہمارے والد پر یہ ثابت کر دیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک گھر اور ہاسٹل گناہ و معصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انہوں نے بے شمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچہ گھر والوں کو یقین سا ہو گیا کہ کالج کا ہاسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے۔ اور جو طلبا باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں اگر ان کی پوری طرح نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یا تو شراب کے نشے میں چُور سڑک کے کنارے کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یا کسی جوئے خانہ میں ہزارہا روپے ہار کر خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر فرسٹ ائیر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کر بیٹھے ہیں۔  

پطرس بخاری

Post a Comment

0 Comments