Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

بلبل : شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے نہ اسے سنا ہے، شفیق الرحمن

 بلبل ایک روایتی پرندہ ہ جو ہر جگہ موجود ہوتا ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں یا باہر بلبل دیکھی ہے تو یقینا کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔ شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے نہ اسے سنا ہے۔ کیوں، اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔ عموماً Sonnet وہ نظم ہوتی ہے جسے محض بلبل کے لیے لکھا گیا ہے. خوش قسمتی سے بلبل اَن پڑھ ہے۔ عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔

بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلبل ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتا ہو گا۔ بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ و شیون۔ دراصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔ بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ بلبل نہیں بچتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔

دراصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہرگز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بُل۔ بُل، بُلبل۔ بُل کی سی آوازیں نکالتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچے؟ بہرحال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آ جائیں تو اسے خاموش کرا سکتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

شفیق الرحمن


Post a Comment

0 Comments