Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اردو طنزو مزاح کا ابتدائی دور

عام طور پر طنز و مزاح کو ادب کی ایک صنف قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ صنف نہیں بلکہ اسلوب یا تکنیک ہے جس کی اپنی کوئی ہیئت نہیں، یہ نظم و نثر کی تمام اصناف میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دونوں الفاظ عموماً ایک ساتھ برتے جاتے ہیں لیکن ان کے معنی و مقصد اور طرزِ بیان میں لطیف سا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح طنز فرد اور سماج کی کمزوریوں، تضاد، توہم، جبر، فرسودہ خیالی اور بدصورتیوں کی گرفت کرتا ہے اور فرد و سماج کی اخلاقی و سماجی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے، اسی طرح مزاح بھی صرف ہنسانے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا۔ مزاح فرد کی ناہمواریوں کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ قارئین کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔ 

لیکن ہنسنے والے صرف ایک لمحے کے لیے ہنس دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ درپردہ ان خامیوں کی اصلاح کی طرف بھی رجوع ہوتے چلے جاتے ہیں، جن کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طنز و مزاح کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ یہ ادب میں سماج کا ترجمان ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ہزل، تمسخر، استہزاد، تضحیک، نوک جھونک، ہجو، پھبتی پھکڑ، لعن طعن، سب و شتم، ملیح مذمت، مضحکات، تعریض، تنقیص، جگت، فقرہ بازی، لطائف، پیروڈی اور آئرنی وغیرہ۔ واضح رہے کہ جب ہم اردو ادب میں طنز و مزاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد ادبی طنزومزاح ہوتا ہے۔ پھکڑپن، چٹکلے بازی، یاوہ گوئی، لطیفہ سازی جس میں ابتذال اور رکاکت ہو، ادبی طنز و مزاح کے زمرے میں نہیں آتے۔

اردو نثر میں طنزو مزاح کی باضابطہ روایت کا آغاز اگرچہ ’’اودھ پنچ‘‘ (1877ئ) سے ہوتا ہے لیکن اس کے ابتدائی نقوش بہت پہلے سے ہی نظر آتے ہیں۔ ان ابتدائی نقوش کو چاہے فنکاروں کی شکست خوردگی کی دین سمجھیں یا حالات کی سنگینی سے نجات پانے کی ایک کوشش۔ بہرحال اس حقیقت سے انحراف ناممکن ہے کہ اس کے عناصر ابتدا ہی سے نظر آتے ہیں۔ اردو نثر میں طنزومزاح کے اولین نقوش قدیم داستانوں میں ملتے ہیں۔ لیکن ان داستانوں میں ظرافت کی سطح بہت پست ہے۔ کرداروں کی نوک جھونک، طعن و تشنیع، پھکڑ پن، فقرے بازی، عیاری، غیرمعیاری لطائف اور فحش قصوں وغیرہ سے یہ داستانیں بھری پڑی ہیں۔ یہ ساری چیزیں معیاری ظرافت کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔ ویسے ان داستانوں کے بیشتر قصے اپنی مضحکہ خیز نوعیت کے اعتبار سے ہماری استہزائیہ حس کو بیدار ضرور کرتے ہیں۔ 

علاوہ ازیں فقرہ بازی، چہل، الھڑ پن اور چست مکالموں کے متعدد نمونے داستانوں میں ملتے ہیں مثلاً رجب علی بیگ سرور کی داستان ’’فسانۂ عجائب‘‘ میں ’’کان پور کی برسات‘‘ کا طنزیہ و مزاحیہ انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ سرور سے قبل دکنی اردو میں لکھی گئی داستان ’’سب رس‘‘ میں وجہیؔ نے رقیب کا جو حلیہ بیان کیا ہے وہ خاصا مضحکہ خیز ہے۔ ’’داستان امیر حمزہ‘‘ اور ’’بوستان خیال‘‘ میں عیاری کے واقعات کے علاوہ بعض عوامل خلافِ فطرت ہونے کے باعث کافی ظرافت خیز ہیں۔ ہیرو کی لمحاتی فتح یا عیاروں کی مخصوص چالاکی میں مسخرا پن پوشیدہ ہوتا ہے۔ سید حیدر بخش حیدری کی ’’طوطا کہانی‘‘، سید انشا کی ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ اور مہجور کی تصنیف ’’نورتن‘‘ میں ظریفانہ انداز جھلکتا ہے۔ اگرچہ ساری چیزیں معیاری ظرافت کی تعریف کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں لیکن ان کا تعلق بہرحال مزاح سے ہے۔ 

اس کے برعکس مرزا غالب کے خطوط میں معیاری طنزو ظرافت کی مثالیں ملتی ہیں۔ ظرافت غالب کی فطری خوش مزاجی کا جزو تھی جو ان کے کلام، لطائف، گفتگو اور بالخصوص ان کے خطوط میں زیادہ نکھر کر آتی ہے۔ اس لیے غالبؔ کو الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیوانِ ظریف‘‘ کہا ہے۔ غالب جو شاعری میں مشکل پسند، بے حد سنجیدہ انسان اور مفکر و فلسفی کے روپ میں نظر آتے ہیں نثر میں ویسے نہیں ہیں۔ نثر میں انہوں نے مشکل الفاظ اور روایتی انداز سے انحراف کر کے اظہار و بیان میں سادگی، دل نشینی، رنگینی اور آسانی پیدا کی۔ نثر میں غالب کے مزاح کی تعمیر میں استعارہ، ذومعنی الفاظ، تجنیس اور تضاد جیسی صنعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ دیکھا جائے تو انہوں نے مراسلے کو نہ صرف مکالمہ بنایا بلکہ بول چال کی اس زبان کو مزاح کی چاشنی بھی عطا کی۔ 

غالب نے طنزو مزاح کو ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے نہیں برتا ہے بلکہ یہ ان کی فطرت کا رجحان تھا جو ان کے خطوط میں بے ساختگی سے جھلکتا ہے۔ مولوی نذیر احمد، سرسید کے رفقا میں سے تھے۔ دونوں کو اردو نثر کے اولین معماروں میں بلند مقام حاصل ہے۔ نذیر احمد نے اپنے عہد کے روبہ زوال معاشرے کی عکاسی بڑی خوبی سے کی ہے۔ ان کی نگارشات میں کردار سے مزاح پیدا کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ سرسید تحریک بنیادی طور پر ایک سنجیدہ تحریک تھی، اس لیے طنزو مزاح کی گنجائش اس میں نہیں تھی۔ تاہم سرسید احمد خاں کی بعض تحریروں میں مزاح کی ہلکی جھلک نظر آتی ہے۔ 

ڈاکٹر رئیس فاطمہ


Post a Comment

0 Comments