Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

مرزا عظیم بیگ چغتائی کے افسانوں میں طنز و مزاح

عظیم بیگ چغتائی کو ادب نواز طبقے نے ’’مصور ظرافت‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ اور حقیقتاً عظیم بیگ چغتائی اس خطاب کے مستحق تھے۔ انہوں نے افسانہ کو اپنے شوخ اور لطیف انداز بیاں کے ذریعے ایک نئے آہنگ سے روشناس کروایا۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی کے مطابق : ’’… عظیم بیگ چغتائی اس دور کے وہ واحد مزاح نگار ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر افسانے کی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے افسانہ میں مزاحیہ رجحان کو برتا۔ انہوں نے اپنی تمام تر قوت افسانے کے فن کو برتتے وقت مزاح نگاری پر صرف کی‘‘۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی زود نویس افسانہ اور ناول نگار تھے۔ یوں تو ان کو اردو ادب میں ایک افسانہ نویس اور ناول نگار کی حیثیت سے شہرت نصیب ہوئی لیکن انہوں نے مختلف موضوعات پر برجستہ قلم اٹھایا تھا۔

مرزا عظیم بیگ چغتائی کے افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں:۱۔ روح ظرافت، ۲۔روح لطافت، ۳۔ خانم، ۴۔ قدردان، ۵۔ پھریری۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں روح ظرافت اور روح لطافت کو بے حد مقبولیت اور پذیرائی نصیب ہوئی۔ روح ظرافت میں درج ذیل افسانے شامل ہیں۔ انگوٹھی کی مصیبت، یکہ، الشذری، کولتار، شاطر کی بیوی، رموز خاموشی، وکالت، مصری کورٹ شپ۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی کا پہلا افسانہ ’’انگوٹھی کی مصیبت‘‘ ظریفانہ انداز میں لکھا گیا یہ افسانہ ’’واقعاتی مزاح‘‘ کا عمدہ نمونہ ہے۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی نے اپنے بیشتر افسانوں کی بنیاد دلچسپ واقعات کو بنایا ہے۔ وہ واقعات مضحکہ خیز شکل میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ 

کبھی کبھی وہ اپنے کرداروں کو عجیب و غریب مشکلات میں مبتلا کر کے ان کی شخصیت کے مضحکہ خیز پہلوئوں کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نامی انصاری نے بجا کہا ہے کہ :’’عظیم بیگ چغتائی نے مضحک واقعات کا سلسلہ جوڑ کر ہنسنے ہنسانے کا سامان فراہم کیا۔‘‘ زیر غور افسانے کی فضا پر ایک مزاحیہ عنصر چھایا ہوا ہے محسوس ہوتا ہے۔ یہ افسانہ خوب صورت مزاحیہ فضا کے اندر رہتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے۔ واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ان کی صورت مزاحیہ ہو گئی ہے۔ مذکورہ افسانے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’اخاہ! یہ موا پان کا گلام کہاں سے آیا، شاہدہ نے ہنس کر کہا ’’دیکھ تو ! …مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے۔‘‘ 

ڈاکٹر صغیر افراہیم مذکورہ افسانے کے متعلق رائے زن ہیں : ’’مرزا عظیم بیگ چغتائی نے اس افسانہ میں بڑے پر لطف انداز میں رسومات پر طنز کیا ہے۔ انہوں نے علامتی طور پر بے معنی رسوم کو ترک کرنے اور ان سے نجات پانے کو افسانہ میں موضوع بنایا ہے۔‘‘ اس افسانوی مجموعے میں شامل ایک اور افسانہ ’’شاطر کی بیوی‘‘ مزاح کے حوالے سے اہم افسانہ ہے۔ پورے افسانے کا دارو مدار ایسے شوہر پر ہے جو شطرنج کھیلنے کا شوقین اور عادی ہے۔ اپنی بیوی کی ناراضی کے خوف اور شطرنج کے شوق کے درمیان بہت دلچسپ کشمکش کو مصنف نے بہت اچھے انداز سے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا رقم طراز ہیں:’’یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جسے عام لوگ ’’زن مرید‘‘ کہہ کر نشانۂ تمسخر بناتے ہیں لیکن جس کی سب سے بڑی ناہمواری اس کوشش میں پنہاں ہے جو وہ اپنی آزادی اور وقار اور اپنی شخصیت کو خانم کے تسلط سے محفوظ رکھنے کے لیے کرتا ہے۔

یہ کوششیں بالعموم ناکام رہتی ہیں اور شوہر اپنی چنچل بیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے تفنّن طبع کا باعث ہے۔‘‘ اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانہ ’’یکہ‘‘ میں ظرافت نگاری بے حد عمدہ ہے۔ فضل حق قریشی دہلوی کی رائے میں:’’روح ظرافت‘‘ میں ’’یکہ‘‘ حقیقتاً جانِ ظرافت ہے۔ اس میں ہر نوع کی چاشنی موجود ہے۔‘‘ ’’یکہ مصنف کی باریک بینی اور جزئیات نگاری کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یکے میں سفر کے دوران مسافروں کی حالت زار کی منظر کشی ملاحظہ ہو:’’تھوڑی دیر بعد نواب صاحب اس کیل سے پریشان ہو کر اکڑوں کی قسم کی کروٹ سے بیٹھ گئے۔ ان کا سر عجیب طرح یکے کے جھکولوں کے ساتھ گردش کر رہا تھا یعنی اس طرح کہ اگر ان کی ناک پر پنسل باندھ دی جاتی اور اس کے سامنے کاغذ ہوتا تو ایک گول حلقہ بن جاتا۔ لیڈی ہمت قدر کو ایسے جھٹکے لگ رہے تھے کہ اگر ان کی ناک پر پنسل ہوتی تو آدھا حلقہ تو ٹھیک بنتا مگر پھر پنسل کاغذ میں چبھ جاتی۔‘‘

صائمہ کاظمی


 

Post a Comment

0 Comments