Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کوّا : کوّا اتنا غیر رومانی نہیں جتنا میں اور آپ سمجھتے ہیں

کوّا گرائمر میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ کوّا صبح صبح موڈ خراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوّے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔ کوّا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ کائیں کے کیا معنی ہیں؟ میرے خیال میں اس کا کوئی مطلب نہیں۔ کوّے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقے میں سفید یا سفیدی مائل کوّا نہیں پایا جاتا۔ کوّا سیاہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ پہاڑی کوّا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوّے پر قانع ہیں۔ کوّے خوبصورت نہیں ہوتے لیکن پہاڑی کوّا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے کیونکہ وہ معمولی کوّے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔ 

کوّے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے۔ لیکن سوشل بننے کی تمنا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے۔ جو کوّا ایک مرتبہ شہر میں آ جائے وہ ہرگز پہلا سا کوّا نہیں رہتا۔ کوّے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوّا نہیں دیکھتا وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوّا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ اڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی بے حد مختصر ہے۔ چنانچہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟ کبھی کبھی کوّے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔

دراصل ایک کوّا دوسرے کوّے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کوّوں کے جوڑے کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کوّا کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ یا کرتا ہے؟ کوّے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور کریکٹر کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوّا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں، مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کوّوں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کوّوں کے لاشعور پر کئی ناخوشگوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ آخر کوّوں کے بھی تو حقوق ہیں۔ 

کوّا باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آتا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔ کہیں بندوق چلے تو کوّے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آ جاتے ہیں۔ اس قدر شور مچتا ہے کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کوّے نہاتے ہیں لیکن حفظان صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔ کوّا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ فکر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔ کوّے سے ہم کئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کوّا بڑی سنجیدگی سے اڑتا ہے، بالکل چونچ کی سیدھ میں۔ کوّے اڑ رہے ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرط لگا کر اڑ رہے ہیں۔ 

کوّے فکر معاش میں دور دور نکل جاتے ہیں لیکن کبھی کھوئے نہیں جاتے۔ شام کے وقت کوئی دس ہزار کوّا کہیں سے واپس آ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ غلط کوّے ہوں۔ کوّا اتنا غیر رومانی نہیں جتنا میں اور آپ سمجھتے ہیں۔ شاعروں نے اکثر کوّے کو مخاطب کیا ہے۔ ’’کاگا لے جا ہمارو سندیس‘‘ ’’کاگا رے جارے جارے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمیشہ کوّے کو کہیں دور جانے کے لیے کہا گیا ہے۔ کسی نے بھول کر بھی خوش آمدید نہیں کہا۔ بلکہ ایک شاعر تو یہاں تک کہہ گیا کہ ’’کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس…‘‘ یہاں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ جانیں اور آپ کا کاگا۔ اگر آپ کووں سے نالاں ہیں تو مت بھولیے کہ کوے بھی آپ سے نالاں ہیں۔

شفیق الرحمن


 

Post a Comment

0 Comments