Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

سقراط کی فکر

سقراط 469 ق م میں ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سنگ تراش تھا اور ماں دائی تھی۔ اس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی اس کا کچھ پتہ نہیں۔ تاہم وہ اپنے پہلے فلاسفہ کی تعلیمات سے آگاہ تھا۔ وہ ہر وقت غور وفکر میں کھویا رہتا اور سوچتا رہتا کہ صداقت کیا ہے ؟ اچھائی کیا ہے؟ وہ روزانہ شہر کے بازار کے کسی کونے میں جا کھڑا ہوتا اور جب کوئی اس سے سوال کر بیٹھتا تو وہ بحث کے عنوان پیدا کر لیتا اور پھر ایک کے بعد دوسرا سوال کر کے مخاطب کو یہ احساس دلاتا کہ وہ کیسے کیسے مغالطوں اور الجھنوں میں مبتلا ہے۔ اواخر عمر میں اس نے ایتھنز کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا کام سنبھال لیا۔

وہ اپنی باتوں میں انہیں اہم سیاسی اور عمرانی مسائل کی طرف توجہ دلاتا رہتا۔ وہ بہت منکسرمزاج تھا اور اکثر کہا کرتا تھا کہ ’’مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں‘‘ ۔ وہ احتساب نفس اور شعور ذات کو ضروری سمجھتا تھا۔ اس کا قول ہے: ’’جو شخص اپنی زندگی کا جائزہ نہیں لیتا اور اپنے نفس کا احتساب نہیں کرتا وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے‘‘۔ ایتھنز کے نوجوان سقراط کے شیدائی تھے اور اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہتے ۔ ان میں امرا اور روسا کے بیٹے بھی شامل تھے، جن میں افلاطون، القی نائدیس اور سٹائی فس نامور ہوئے۔ سقراط کے اپنے قول کے مطابق وہ فلسفی اس لیے بنا کہ سو فسطائیون کے نظریات کا مقابلہ کر سکے۔ 399ق م میں اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اور اس نے نیا دیوتا بنا لیا ہے۔

اس ناواجب الزام کی اصل وجہ یہ تھی کہ پیلو پونیسین جنگ میں ایتھنز کو شکست ہوئی تھی۔ غصے میں آکر ایتھنز والے سقراط کے خلاف ہو گئے، اس لیے کہ خواص کے طبقے کے ساتھ اس کے تعلقات تھے جن میں غدار القی بائدیس بھی شامل تھا۔ نیز سقراط لوگوں کے عام عقائد پر تنقید کرتا رہتا تھا۔ اس بات کی شہادت بھی ملتی ہے کہ وہ جمہوریت کی مذمت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ سوائے اہل عقل و دانش کی حکومت کے اور کوئی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ اسے حکومت کہا جائے۔ چونکہ سقراط نے خود کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے اس کی تعلیمات کاٹھیک ٹھیک تعین کرنا مشکل ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا درس دیتا تھا اور تجریدی فلسفے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

افلاطون کی بعض تحریروں سے امکان کا نشان ملتا ہے کہ اس کے نظریہ امثال (آئیڈیاز) کی ابتدا سقراط سے ہوئی تھی۔ بہرحال اتنی بات تو یقینی ہے کہ سقراط ایک متوازن اورکلی طور پر صحیح اور مؤثر علم میں یقین رکھتا تھا۔ جو باہمی مکالمے اور آرا و افکار کے تبادلے اور تجزیے سے حاصل ہو سکتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے زیربحث امر کی کچھ عارضی اور وقتی تعریف کی جائے اور پھر پوری طرح چھان پھٹک اور بحث و مباحثے کے بعد ایسی صداقت تک پہنچا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اسے یقین تھا کہ جب زندگی گزارنے کے لیے اس طرح کے عقلی اصول اور قاعدے دریافت کر لیے جائیں تو ان کے بل بوتے پر ایک پاک صاف زندگی گزاری جا سکتی ہے اور وہ اس بات سے انکار کرتا تھا کہ اگر ایک شخص کو نیکی کا صحیح علم ہو جائے تو وہ پھر بھی برائی کا راستہ اختیار کرے گا۔ 

سقراط نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع ضرور کیا۔ لیکن اس کو جو موت کی سزا دی گئی تھی اس نے اسے بھی قبول کر لیا۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق سقراط کے شاگردوں نے یہ کوشش کرنی چاہی کہ دروغہ زندان کو کچھ دے دلا کر سقراط کو زنداں سے بھگا لے جائیں۔ لیکن اس نے بھاگ جانے سے صاف انکار کر دیا اور زہر کا پیالہ پی کر پورے سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں سو گیا۔ سقراط کی ذات سے فلسفے کی تین تحریکوں نے جنم لیا جو بعض مسائل میں ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ کلبیت (سینی سیزم)، لذتیت (ایپی کیورین ازم) اور مثالیت (آئیڈیل ازم) ۔ ان میں سے پہلی دو تحریکوں کا ذکر آگے آئے گا۔ مثالیت پسندی کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ اس کا بانی سقراط کو سمجھا جائے یا افلاطون کو ۔ سقراط نے اپنی کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ اس کے منتشر افکار افلاطون یا زینوفون کے یہاں ملتے ہیں۔

بعض اہل رائے کہتے ہیں کہ افلاطون نے اپنے استاد کے خیالات ہی کو اپنے مکالمات میں جوں کا توں قلمبند کیا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے ۔ بہر حال یہ خیال کوئی ایسا غلط نہیں ہے کہ افلاطون کی مثالیت پسندی کے پیچھے سقراط کی شخصیت اور اس کی تعلیمات کا بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے پہلے سقراط نے ہی دعویٰ کیا کہ کسی چیز کی کنہہ کو سمجھنے کے لیے اس کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے بیان (define) کرنا بہت ضروری ہے۔ سقراط کے نزدیک یہ کام صرف عقل ہی کر سکتی ہے۔ اس طرح کی تعریف کو اس نے کانسپٹ کا نام دیا۔ یہ نظریہ بہت انقلاب پرور ثابت ہوا۔ افلاطون نے اس پر اپنے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھی اور بعد میں یہ تمام مثالیت پسندوں کے لیے اصول بن گیا۔ سقراط نے کہا کہ یہ کائنات بے مقصد نہیں ہے جیسا کہ مادیت پسند کہتے ہیں۔ اس نے کہا عدل کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں معاشرے کے تما م طبقات برابر شریک ہیں۔ اس نے ایک قسم کے اشتمالی معاشرے کا تصور پیش کیا جس میں ہر فرد اپنی قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما اور تکمیل کے لیے زندگی گزارے اور ذاتی مفاد پر جماعت کے مفاد کو مقدم رکھے۔

محمد کاظم


 

Post a Comment

0 Comments