Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

فطری شاعر اور ادیب عبدالمجید سالک

مولانا عبدالمجید سالک 13 دسمبر 1894 ء کو پٹھانکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام غلام قادر تھا جو میونسپل کمیٹی پٹھانکوٹ کے سیکرٹری تھے۔ انہیں شعر گوئی کا بھی شوق تھا اور عاصی تخلص کرتے تھے۔ عبدالمجید سالک فطری طور پر شاعر اور ادیب کی خصوصیات لے کر دنیا میں آئے تھے ان کی صلاحیتیں اپنے ہی گھر کے ادبی ماحول میں پروان چڑھیں۔ 12 سال کی عمر میں آپ نے مڈل پاس کر لیا، مزید تعلیم کے لیے ایم بی ہائی سکول بٹالہ میں داخل ہوئے لیکن چونکہ عمر چھوٹی تھی اور ان دنوں پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکے کو میٹرک کے امتحان میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی اس لئے کچھ عرصہ کیلئے سکول چھوڑ دیا۔ 1910 ء میں دوبارہ سکول میں داخل ہوئے اور اسی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1912 ء میں آپ کی شادی ہوئی گئی۔ 

شادی کے کچھ عرصہ بعد ملازمت کی تلاش میں لاہور آئے اور یہاں ریلوے اکائونٹس میں کلرک ہو گئے۔ ریلوے کی نوکری صرف سات ماہ کی اور پھر واپس پٹھانکوٹ چلے گئے اور وہاں ایک سکول میں مدرس مقرر ہو گئے۔ 1941 ء میں رسالہ ’’فانوس خیال‘‘ جاری کیا۔ دو ہی اشاعتوں کے بعد اس رسالے کو خوب پذیرائی ملی۔ علامہ اقبالؒ، شبلی نعمانی، اکبرالہٰ آبادی ، مولانا راشد الخیری ، سیماب اکبر آبادی اور ملک کے دوسرے بڑے بڑے ادیبوں نے قلمی معاونت کی۔ دس ماہ تک یہ پرچہ بخوبی نکلتا رہا لیکن پھر مالی پریشانیوں کی وجہ سے سالک اس کو مزید شائع نہ کر سکے۔ اس رسالے کی بندش کے بعد سالک مدرسی سے استعفیٰ دے کر لاہور آ گئے۔ 

لاہور آ کر وہ سید امتیاز علی تاج کے والد سید ممتاز علی کے لٹریری اسسٹنٹ ہو گئے اور ان کے رسائل پھول و تہذیب نسواں کے معاون مدیر مقرر ہوئے۔ سید امتیاز علی تاج نے جب علمی و ادبی مجلہ کہکشاں شروع کیا تو سالک ان کے بھی دست راست تھے۔ مختلف رسائل میں ان کے افسانے، مقالات اور نظمیں ’’گمنام‘‘ کے نام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ انہی دنوں میں آپ نے مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارم رپورٹ ، رولٹ کمیشن رپورٹ اور ٹیگور کے ناٹک ’’چترا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ’’چترا‘‘ کا ترجمہ دارالاشاعت نے شائع کیا۔ اسے خوب پسند کیا گیا اس کا دیباچہ خواجہ حسن نظامی نے خود خواہش کر کے لکھا تھا۔ اب پنجاب کے ادبا میں سالک کو خاص مقام حاصل ہو چکا تھا ۔ مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ کی ادارت کیلئے سالک ہی کا انتخاب کیا۔ 

انہوں نے ’’ زمیندار‘‘ کو جو چار چاند لگائے اس کی داستان اردو کی تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے شہرہ آفاق مزاحیہ کالم ’’ افکار و حوادث ‘‘ کی بنیاد انہوں نے اسی اخبار میں رکھی۔ 1921 ء میں اخبار ’’ زمیندار‘‘ میں سامراج دشمن اداریہ لکھنے پر آپ کی گرفتاری عمل میں آئی اور آپ سنٹرل جیل لاہور اور ڈسٹرکٹ جیل میانوالی میں اسیر رہے۔ رہائی کے بعد سالک نے دوبارہ ’’ زمیندار‘‘ میں کام شروع کر دیا۔ یہاں آ کر ان کی ملاقات مولانا غلام رسول مہر سے ہوئی اور یہ تعلق تاحیات قائم رہا۔ عبد المجید سالک نے اپنے دوست چوہدری فخر الدین احمد کے ساتھ مل کر لاہور میں ایک یتیم خانہ ’’ دار الفرقان ‘‘ قائم کیا اور تادم مرگ اس ادارہ کے سرپرست و معاون رہے۔ 1949 ء عبد المجید سالک مرکزی شعبہ اطلاعات کے مشیر مقرر ہوئے۔ 

اس عرصہ میں ان کا قیام کراچی میں رہا۔ اس دور میں انہوں نے قومی مورال کو بحال رکھنے کیلئے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین ابو رشید وجدانی جلال حیدر علوی، محمد افضل اور اس طرح کے دوسرے ناموں سے شائع ہوتے رہے۔ تین سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن محمد علی بوگرہ کے زمانے میں بعض وجوہ کی بناء پر انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور لاہور واپس آگئے۔ یہاں آ کر بزم اقبال ، ادارہ ثقافت اسلامیہ اور مجلس ترقی ادب کے لئے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیا۔ متعدد انگریزی کتب کا ترجمہ کیا۔ انسائیکلوپیڈیا کیلئے مضامین لکھے۔ اس عرصہ میں لکھی گئی آپ کی تصنیف ’’مسلم ثقافت ہندوستان میں ‘‘ پر آپ کو یونیسکو نے انعام سے نوازا۔ آپ کا تصنیفی سرمایہ درج ذیل ہے۔ سرگزشت ‘ ذکر اقبال ‘ یاران کہن ‘ مسلم ثقافت ہندوستان میں ‘ اسلام اور مسلمان ‘ کاریگری ‘ ایجادات ‘ دانایان فرنگ ‘ سیاحوں کی کہانیاں ‘ قدیم تہذیبیں ‘ آئین حکومت ہند ‘ امداد باہمی ‘ چمپا اور دیگر افسانے ۔ 

ان کے علاوہ بے شمار کتب کے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔ عبد المجید سالک خوش گو شاعر اور بڑے عمدہ مزاح نگار تھے۔ انہوں نے مولانا حالی کی طرح اصلاحی شاعری کی۔ اردو ‘ فارسی غزلوں کے علاوہ قومی نظمیں ان کے شعری سرمائے میں شامل ہیں۔ اگرچہ آپ کا شعری ترکہ بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو کچھ ہے وہ اردو ادب کا لافانی گہر ہے۔ مزاح نگار کے طور پر ان کے کالم ’’ افکار و حوادث ‘‘ نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ان کی مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بلندی اور دلآویزی موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ان کے مزاح کو صاحب علم بھی سمجھ سکتے ہیں اور ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ 

ان کا کالم ’’ افکار و حوادث ‘‘ 27 سال تک ہر روز چھپتا رہا اور اس کا مطلع ہمیشہ تاباں و درخشاں رہا اور یہ ان کا بہت بڑا کمال تھا۔ ’’ افکار و حوادث ‘‘ کے زیر عنوان لکھے گئے مضامین نہ صرف ہمارے صحافتی ادب میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں بلکہ لطف بیان کے اعتبار سے یہ مضامین اردو ادب میں بھی بلند مقام کے حق دار ہیں۔ اردو صحافت میں طنزو مزاح کے جو نئے اسالیب سالک نے پیدا کئے وہ ا یک اجتہاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور زمانہ مستقبل کا ادبی مورخ جب اردو ادب کی تاریخ لکھے گا تو ادب کی اس صنف میں سالک کے مقام کو ایک سنگ میل نہیں بلکہ ایک منزل کا مرتبہ دے گا۔ ادب و صحافت کا یہ درخشندہ باب 13 دسمبر 1957 ء کو بند ہوا آپ کا مدفن قبرستان مسلم ٹائون لاہور میں واقع ہے۔

محمد اسلم


 

Post a Comment

0 Comments