Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں لائبریریوں کی حالت زار

انسان میں علم حاصل کرنے کی جستجو نے تخلیق کو جنم دیا ہے۔ انسان میں جاننے کی جستجو کی کوئی حدیں نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ کبھی مطمئن ہوتی ہے۔ یہ جستجو کا سلسلہ انسان کی تخلیق سے اِس جدید دور تک جاری ہے۔ یہ صدیوں سے حاصل کی گئی قابلِ قدر اور بیش بہاعلم اور معلومات نے انسان کی بہت خدمت کی ہے۔ اِنسان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِن معلومات کو محفوظ کرنے کا بندوبست کیا۔ کاغذ کی ایجاد کے بعد علم اور معلومات دوسروں تک پہنچانے کے لیے کاغذ کا استعمال کیا گیا۔ ابتدائی دور میں دانا لوگوں کی طرف سے لکھے گئے ہزاروں مسودات مناسب محفوظ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے اِن مسودات کو کتابوں کی صورت میں اکٹھا کیا۔پھر اِس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اِن کتابوں کو جو کہ معلو مات کا ایک خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اِن کو کس طرح ترتیب دیا جائے۔ لائبریریوں کا قیام علم اور معلومات کے خزانوں کو منظم اور محفوظ بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا۔ یہ بات انسانوں کے لیے بہت اہمیت کی ہے کہ وہ اِن علم و حکمت اور معلومات کے خزانوں کو محفوظ کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کریں۔ تاکہ وہ اِس سے مستفید ہو سکیں۔ آ ج پوری دنیا میں لوگ جدید لائبریریوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔

لائبریریوں کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اِس میں جدت آتی جا رہی ہے۔ یہ جدید لائبریریاں اِس وقت طالب علموں کے لیے علم اور تحقیق کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اِس صدی کے آغاز سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی وجہ سے معلومات کا ایک طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اِس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال نے لائبریریوں کو بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر اور اپ گریڈ کر دیا ہے تاکہ نئے چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔ اب کتابیں نہ صرف چھپائی کی صورت میں مہیا ہیں بلکہ ڈیجیٹل شکل میں بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لائبریریاں نہ صرف ڈیجیٹل شکل میں موجود ہیں بلکہ یہ لائبریریاں آپس میں ایک نیٹ ورک کی صورت میں منسلک ہو گئی ہیں۔ اب آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں آپ پوری دینا میں موجود ڈیجیٹل لائبریریوں سے کسی بھی وقت منسلک ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں لائبریریوں کی صورتِ حال تعلیم کی صورتحال سے مختلف نہیں ہے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً ساڑھے چار ہزار کے قریب لائبریریاں موجود ہیں۔ جن کی زبوں حالی کا ذکر ڈاکٹر ظہیر احمدبابر (ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب) نے چغتائی پبلک لائبریری کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر ملاقات میں کیا۔ ڈاکٹر ظہیر احمدبابر آج کل پاکستان میں لائبریریوں کی بحالی کی خاطر مصروفِ عمل ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی بات کریں تویہاں چھ مشہور لائبریریاں ہیں۔ جن کے ناموں میں قائداعظم پبلک لائبریری، ماڈل ٹائون پبلک لائبریری، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، پنجاب پبلک لائبریری، ڈیفنس پبلک لائبریری کمپلیکس اور چغتائی پبلک لائبریری شامل ہیں۔

ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اِن چھ لائبریریوں کے کل ممبر ز کی تعداد 117,448 ہے اور اِن لائبریریوں میں کل کتب کی تعداد صرف 478, 613 ہے۔ اِن تمام لائبریریوں میں روزانہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی تعداد صرف 2500 سے 3000 کے درمیان ہے۔ ڈاکٹر ظہیراحمد بابر نے بتایا کہ پنجاب میں کل 1033 لائبریریاں ہیں جن میں سے 550 کالجوں میں 155 یونیورسٹیوں میں 171 لوکل گورنمنٹ کے زیرِ انتظام اور 160 بلدیہ کے زیرِ انتظام چل رہی ہیں۔ ہمیں تعلیم و تحقیق کی خاطر لائبریریوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور آسان اور قابلِ رسائی تعلیم ہر فرد کا حق ہے۔  

ڈاکٹر مریم چغتائی


Post a Comment

0 Comments