Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی

مولانا الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت کے محلہ انصار میں خواجہ ایزد بخش انصاری کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ پانی پت بھارت کے دارالحکومت دہلی کے شمال میں 53 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے، ان کے بزرگوں میں بڑے بڑے علماء فضلا، صوفی، ادیب اور خطیب گزرے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ان دنوں پانی پت کے مسلمانوں میں دینی تعلیم عام تھی۔ خصوصاً قرآن مجید کی قرأت کے ساتھ تلاوت کا بڑا چرچا تھا۔ مولانا حالی کو بھی وہاں کے دستور کے مطابق قاری حافظ ممتاز حسین کے پاس قرآن کریم پڑھانے کے لئے بٹھایا گیا۔

مولانا حالی بچپن ہی سے بڑے ذہین اور پڑھنے کا بیحد شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے جلد ہی قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ انہوں نے اس قدر شوق و محبت اور لگن کے ساتھ قرآن مجید حفظ کر کے قرأت کے ساتھ تلاوت کرنا شروع کی کہ وقت کے بڑے بڑے قاری حضرات ان کی خوش الحانی اور صحت کے ساتھ قرأت پر عش عش کر اُٹھتے تھے۔ قاری حافظ ممتاز حسین سے قرآن پاک کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُنہیں پھر باقاعدہ حصول تعلیم کا موقع نہ ملا، تاہم آپ نے فارسی کی تعلیم کے لئے، سید جعفر علی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ یہ بزرگ میر ممنون دہلوی کے داماد اور بھتیجے بھی تھے۔

آپ نے فارسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں عربی زبان سیکھنے کا شوق ہوا، تو آپ نے حاجی ابراہیم حسین انصاری سے صرف و نحو کی پڑھائی شروع کی۔ حاجی ابراہیم حسین انصاری عربی کے بڑے مشہور عالم تھے۔ مولانا حالی کی ابھی علم کی پیاس پوری طرح نہیں بجھی تھی کہ سترہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی۔ حالی نے کسی قسم کی ملازمت کرنے کی بجائے علم کے مزید حصول کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کی خاطر مولانا حالی کی نظر میں دہلی بہتر جگہ تھی۔ آپ دہلی روانہ ہو گئے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے گھر سے اجازت مانگی تو یہ اجازت انہیں نہیں ملے گی۔ مولانا حالی بے سرو سامان، اکیلے ہی کسی طرح پانی پت سے دہلی پہنچے۔ یہ تفصیلات صیغۂ راز میں ہیں، مگر مولانا حالی دہلی پہنچ گئے۔ وہاں جا کر مولانا حالی نے مدرسہ حسین بخش نزد جامع مسجد میں داخلہ لے لیا، وہاں نامور عالم اور واعظ مولانا نوازش علی درس دیا کرتے تھے۔

جب مولانا حالی دہلی میں تھے تو ان کی عمر اٹھارہ انیس برس کے لگ بھگ تھی کہ انہوں نے وہاں سے ایک ہفتہ وار رسالہ جاری کیا۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھی ۔ اگرچہ ان کے رسالے کا نام کسی جگہ نہیں ملتا۔ بعض کا خیال ہے کہ جو چھوٹی سی کتاب ان کے نام سے منسوب ہے، وہ وہی رسالہ تھا۔ دہلی ہی میں ان کی ملاقات اپنے دور کے گوہر یکدانہ اسد اللہ خان غالب سے ہوئی۔ انہیں غالب کا کلام بہت پسند تھا۔ وہ اکثر ان کے ہاں جا کر اُردو فارسی کے بعض اشعار کا مفہوم ان سے سمجھا کرتے ۔ مولانا دہلی میں مصروف تعلیم تھے اور شعر و سخن کا مشعلہ بھی جاری تھا کہ گھروالوں کو ان کی دہلی میں موجودگی کی خبر مل گئی۔ بڑے بھائی اور دوسرے احباب دلی آئے اور انہیں گھر واپس آنے پر زور دیا، چنانچہ مولانا 1855ء میں دہلی سے واپس اپنے گھر پانی پت آگئے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی گھریلو ذمہ داریاں بڑھیں تو تلاش روزگار میں پھر دہلی آنا پڑا۔ اس صورتِ حال کا ذکر یادگار حالی کی فاضل مصنفہ محترمہ صالحہ عابد حسین نے بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ آپ رقم طراز ہیں کہ ’’جب حالی تلاش معاش میں دلی روانہ ہوئے تو دلی جنگ آزادی کی ناکامی کے باعث برباد ہو چکی تھی، مگر اس طرح لٹنے کے بعد بھی اس کی پرانی شان کچھ نہ کچھ باقی تھی۔ اب بھی علم و فن اور شعر وسخن کا اچھا خاصا چرچا تھا۔ حالی دلی آئے تو شعر و سخن کا ذوق پھر تازہ ہو گیا اور وہ علمی مجلسوں اور ادبی محفلوں میں آنے جانے لگے۔ دلی میں ان کی ملاقات نواب مصطفی خان شیفتہ سے ہو گئی۔

شیفتہ اس ذہین، شریف، نیک سیرت نوجوان سے، جس نے کم سنی ہی میں علم و فضل میں غیر معمولی قابلیت حاصل کر لی تھی اور جس کا ذوق سخن نہایت پاکیزہ تھا، ان سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے حالی کو جہانگیر آباد بُلا کر اپنے بچوں کا اتالیق مقرر کر دیا۔ 1869ء میں شیفتہ انتقال کر گئے۔ مولانا حالی کو ایک بار پھر فکر معاش نے آن گھیرا۔ اس مرتبہ انہیں لاہور میں پنجاب گورنمنٹ بکڈپو میں ملازمت مل گئی ۔ یہاں ان کے ذمے یہ کام تھا کہ انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی اردو کتابوں پر نظر ثانی کریں اور ان کی عبارت درست کریں۔ قریباً چار برس تک لاہور میں آپ یہ کام کرتے رہے۔ یہاں آپ کو انگریزی زبان و ادب کی لاتعداد کتابوں کے مفہوم و مطالب سمجھنے کا موقع ملا۔ 1309ء ہجری میں مولانا حالی، سرسید احمد خان اور مولانا شبلی نعمانی کے ہمراہ علی گڑھ محمڈن کالج کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں حیدرآباد دکن گئے، جہاں وقار الامراء بہادر کی زیر صدارت بشیر باغ میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا، جس میں مولانا الطاف حسین حالی سمیت مولانا شبلی اور بعض دیگر حضرات نے اپنا کلام سنایا۔

مولانا حالی دہلی کے مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر شرکاء مشاعرہ کی داد وتحسین سمیٹتے رہے۔ انہی دنوں سرسید احمد خاں نے انہیں اِس بات پر مائل کیا کہ آپ مسلمانوں کی تنزلی اور پستی کی داستان کو ایک رقت آ میز اور پرتاثیر اشعار میں رقم کریں کہ اسلامیانِ ہند وستان اسے پڑھ کر نہ صرف تڑپ اُٹھیں، بلکہ سبق سیکھ کر خود کو سنبھالنے کی فکر کریں۔ حالی نے اپنے عیش و آرام کو ایک طرف رکھ کر اپنے عزیز دوست سر سید احمد خاں کی آرزو کی تکمیل میں سالہا سال لگا دیئے۔ درحقیقت مسلمانوں کی حالت زار پر یہ دونوں دوست دکھ اور کرب کی ایک ہی کشتی میں سوار تھے۔ 

اس کا اندازہ مولانا حالی کی تحریر کردہ مسدس حالی کے دیبا چے سے ہوتا ہے۔ یہ بار بار پڑھا جائے تو بھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا نقشہ کھینچا ہے، جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا۔ پھر کوکب اسلام کا طلوع ہونا، نبی اُمیّ ؐ کی تعلیم میں اس ریگستان کا سر سبز و شاداب ہو جانا اور اس امیر رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہر ابھرا چھوڑ جانا، مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔

اس کے بعد ان کے تنزل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لئے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے، جس میں آ کر وہ اپنے خد و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے۔ مولانا حالی کی مسدس قدیم و جدید شاعری کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے، جس کی نظیر اردو ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی اور نہ ایسی شاعری کی مزید امید کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ مسدس حالی حقیقت نگاری، صداقت ،خلوص اور درد و سوز سے لبریز ایسا مجموعہ کلام ہے، جس کے ایک ایک شعر اور مصرعے سے قاری کیف و سرور سے جھوم اُٹھتا ہے۔

حکومت نے مولانا الطاف حسین حالی کی قابل قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔ اس پر ہندوستان بھر کے علمی، ادبی اور سماجی حلقوں میں اظہار مسرت کیا گیا۔ بالآخر جدید اردو شاعری کے بانی، اور آسمان علم وادب کے آفتاب شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی31 دسمبر 1914ء کو غروب ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ان کے جسدِ خاکی کو پانی پت میں درگاہ قلندر صاحبؒ کے صحن میں برلب حوض سپرد خاک کر دیا گیا۔

شاہد رشید
 

Post a Comment

0 Comments