Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا، پروین شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

آج ہم بات کر رہے ہیں خوشبو جیسی شاعرہ پروین شاکر کی ۔ سید شاکر حسن زیدی کے یہاں 24 نومبر 1952 کو کراچی میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے خاندان میں کئی نامور شاعر پیدا ہوئے جن میں بہار حسین آبادی اور آپ کے نانا حسن عسکری ادبی ذوق سے مالامال تھے جن کی محنت سے پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین شاکر نے انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں بھی حصہ لیتی رہیں اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

وہ بطور اُستاد تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور 9 سال بعد کسٹمز کے محکمے میں ملازمت کر لی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں بھی شرکت کرتی رہیں۔ پروین شاکر ایک حساس ذہن کی خاتون تھیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو 1976 میں منظر عام پر آیا۔ ان کا یہ شعری مجموعہ راتوں رات ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتا چلا گیا اور ان کی صورت پاکستان کے شعری فلک پر ایک نیا ماہتاب دمکنے لگا تھا۔ ان کا نام ہر ادبی محافل میں سنائی دینے لگا۔ اپنی شاعری کے منفرد لہجے کی وجہ سے بہت ہی تھوڑے وقت میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

آپ کی تخلیقات میں ’خوشبو‘،’ صد برگ‘،’ خود کلامی‘، ’ انکار‘، ’ماہ تمام‘ شامل ہیں۔ 26 دسمبر 1994ء کو 42 سال کی عمر میں اسلام آباد میں ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی برسی کے موقع پر اردو ادب سے شوق رکھنے والے افراد پروین شاکر کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ اُن کے کلام کی خوشبو کو پھیلانے کے لیے خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

عمران اسماعیل
 

Post a Comment

0 Comments