ہوئی مدت کہ غالب مر گیا ، پر یاد آتا ہے‘ اردو زبان کے عظیم ترین شاعر اسد اللہ خان غالب اگر آج ہوتے تو اپنی 220 ویں سالگرہ منا رہے ہوتے۔ آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں آپ کی پیدائش ہوئی اور پانچ سال کی عمر میں والد کےفوت ہو جانے کے بعد آپ کی پرورش چچا نے کی تاہم چار سال بعد چچا کا سایہ بھی آپ کے سر سے اٹھ گیا۔ غالب شروع میں فارسی میں شاعری کرتے تھے اوراُس زمانے میں ’’اسد‘‘ ان کا تخلص تھا تا ہم آگرہ سے دہلی آبسنے کے بعد انہوں نے اردو میں بھی شاعری کی۔
مرزاغالب کا خاص کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کی سچائی اورانسان کی نفسیات کو گہرائی میں جا کر اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کر دیتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔ غالب کی شاعری کا مجموعہ انسان اور اِرد گرد کےماحول کے مسائل اور ساتھ ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے لہٰذا انہی سب عنوانات کی بدولت اردو شاعری کو وسعت ملی ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ یوں ہے کہ:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں میرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ میرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
آپ پر کافی فلمیں بھی بنائی گئی جیسا کہ 1954 میں فلم ’مرزا غالب‘ بنی جس کا اہم کردار بھرت بھوشن نے ادا کیا۔ بھارتی حکومت نے قومی بہترین فلم اعزاز کا سلسلہ اسی سال سے شروع کیا اور پہلا ایوارڈ اسی فلم کو دیا گیا۔ سن 1988 میں فلمی شاعر اور بھارتی ادیب و دانشور گلزار نے بھی ’مرزا غالب ‘ کے نام سے ایک ٹی وی سیریل بنایا جس میں غالب کا کردار نصیر الدین شاہ نے ادا کیا تھا۔ غالب پرآج تک بے شمار کتابیں لکھی گئیں جن میں ’دیوان ِ غالب‘،’آپ کے خطوط‘، ’شرح دیوانِ غالب‘، ’کلیات مکتوبات ِ فارسی غالب‘ وغیرہ شامل ہیں۔ مرزا غالب اردو شاعری کا ایسا اثاثہ تھے جو ساری زندگی’ خرچ‘ کرنے پر بھی شاید ختم نہ ہو۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے گوگل نے آج ان کے نام سے ’ڈوڈل ‘تخلیق کیا ہے۔ غالب 15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کر گئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی قائم و دائم رہے گا۔
0 Comments