Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

بیسویں صدی میں اردو ڈرامہ

ادب زندگی کا ایک شعبہ اور اپنے ماحول کا ترجمان ہے۔ ادب اور سماج کا تعلق بہت پرانا اور گہرا ہے۔ ہر ادیب اپنے ماحول سے اثر لیتا ہے اور یہ اثر لینا اس کی تخلیقات میں شعوری اور لاشعوری طور پر واضح ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو ادب برائے زندگی کے قائل نہیں ان کی تخلیقات بھی ان کے سماجی نظریات ، معاشرتی رویوں اور رجحانات کی عکاس ہوتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ادیب اور تخلیق کار کی تخلیقات کو جانچنے سے پہلے اس وقت کے معاشرتی رجحانات اور سیاسی و مذہبی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ 

اختر حسین رائے پوری کی رائے اس سلسلے میں صائب ہے:۔ ’’ادیب سماج کے مطالبات اور اپنے گردو پیش سے ہر انسان کی طرح متاثر ہوتا ہے۔ وہ جس زمانے میں تہذیب و تمدن کی گود میں پرورش پائے گا جن لوگوں کے ساتھ رہے گا اور جن روایات و خیالات کا حامل ہو گا وہ یقینا اس کے جذبات کو رنگ روپ دیں گے اس لیے میری ناچیز رائے میں کسی ادیب کی روح کو سمجھنے کے لیے اس فضا کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے جس میں اس نے پرورش پائی۔ جب تک اس زمانے کی زندگی نہ سمجھی جائے۔ یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ ادیب نے یہی کیوں کہا۔ اس کے خلاف کیوں نہیں کہا اس لیے کہ ادیب اپنے جذبات کی نہیں اپنی فضا کی جذباتی ترجمانی کر رہا ہے۔

اس کی زبان سے اجتماعی انسان بول رہا ہے۔‘‘ اسے عمرانی مطالعہ کہیں یا نہ کہیں بہرطور کسی بھی تخلیق کے تانے بانے اختر حسین رائے پوری کے مطابق اس کے سماج سے ہی جا کر ملتے ہیں۔ ڈرامے کی ابتداء کے بارے میں تفصیلاً عرض کیا جا چکا ہے کہ دیگر ادبی اصناف کی طرح ڈراما بھی جنوں پریوں کے قصوں سے شروع ہوا۔ اس وقت ہندوستانی معاشرہ سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے زوال کا شکار تھا۔ دہلی غدر کا صدمہ سہہ رہا تھا اور لکھنو میں نوابین عیاشیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ جنوں اور پریوں کے تخیلات، عیاشیوں کی طرف ان کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

ملک کے سیاسی اور معاشرتی حالات سے غفلت اور عیش و عشرت سے رغبت کے باعث وہاں جتنا بھی ادب تخلیق ہو رہا تھا وہ نوابین اور امراء کی عیاشیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈرامے کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کا آغاز ناٹک اور رہس سے ہوا۔ اگر اس کی ابتدا اندرسبھا اور واجد شاہی رہسوں کے راگ ناٹکوں سے ہونے کی بجائے کسی معاشرتی یا معاشی مسئلے سے ہوئی ہوتی تو آج شاید ہمیں اس کی کم مائیگی کا رونا نہ رونا پڑتا۔‘‘ بہر حال ڈرامہ پارسی تھیٹر تک پہنچا تو مغربی ڈراموں کے تراجم کی بدولت اس میں معاشرتی مسائل کی جھلک نظر آنے لگی لیکن یہ مسائل ہندوستان کی سرزمین کے نہ تھے۔ پھر آغا حشر کاشمیری نے بلند آہنگی اور رومانوی اسلوب کی بناء ڈالی۔ 

طبع زاد ڈراموں کا دور شروع ہوا لیکن ان ڈراموں میں بھی غیر ملکی کردار اور معاملات ہی موضوع رہے۔ اس دوران ہندوستان پر انگریز قبضہ کر چکا تھا۔ انیسویں سے بیسویں صدی تک آتے آتے برصغیر کے حالات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ مغربی ادب کے زیر اثر ادب کو زندگی سے جوڑا جانے لگا۔ افسانہ، ناول اور شاعری میں نئے تجربات ہونے لگے۔ ترقی پسند تحریک کے تحت افسانہ معاشرتی اور انسانی مسائل کا ترجمان بنا لیکن اس دوران ڈرامہ انحطاط کا شکار رہا ،جس کی وجہ سنجیدہ ادیبوں کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا تھا۔ بیسوی صدی ہندوستان میں تغیرات کی صدی ہے۔ عورت کی سماجی حیثیت کا اعتراف بھی اس صدی میں ادیبوں کی تخلیقات میں نظر آتا ہے اور اسے رنگ و نور، غمزہ و عشوہ، ناز و ادا کے مثالی پیکروں سے ہٹ کر بھی سوچا جانے لگا۔

ترقی پسند افسانے کا یہ احسان ہے کہ اس نے ادیبوں کو زمینی حقائق اور مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا اہم ترین کام کیا۔ عورتوں میں شخصی آزادی اور تشخص کی پہچان کا شعور پیدا ہوا تو ہندوستانی عورت اپنے روایتی منصب سے باہر نکلی۔ اس وقت کے ادیبوں کے ہاں تعلیم یافتہ، مزدور، مظلوم، استحصال کا شکار، طوائف اور گھریلو معصوم عورت کے کردار نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ عالمی ادب سے آگاہی کے باعث تھوڑا بے باک ہوا تو ڈرامے میں بھی عورت اپنے اصل سماجی مناصب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ 

عصمت چغتائی، رشید جہاں، حکیم احمد شجاع، امتیاز علی تاج، عشرت رحمانی، سید عابد حسن، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور دیگر ڈرامہ نگاروں کے ہاں عام عورت محبوبہ، بیوی، بہن بیٹی اور ماں کے کرداروں میں نظر آنے لگی۔ قیام پاکستان کے بعد اسٹیج ڈراما معدوم ہو گیا جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا تھا اور ریڈیو نے ڈرامے کو سنبھالا دیا ہوا تھا۔ لہٰذا اس وقت ڈرامے بہت کم تحریر ہوئے اور جو ہوئے بھی تو وہ سامعین کو تفریح مہیا کرنے کی غرض سے لکھے گئے لیکن ڈرامے میں کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو ضرور بیان کیا جاتا۔ اس کے مدمقابل افسانہ اس وقت کے خلفشار، قومی تشخص، عورت کے مسائل، خاندانی شیرزاہ بکھرنے کے مسائل اورمرد و عورت کے تعلقات کی عکاسی بہت خوبصورت طریقے سے کررہا تھا۔ ۲۵؍نومبر ۱۹۶۴ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کا افتتاح ہوا اور اردو ڈرامے کے درخشندہ دور کا آغاز بھی۔

شمائلہ حسین


 

Post a Comment

0 Comments