مختلف مذاہب کے بانیوں کو چھوڑ کر دنیا میں کنفیوشس کے سوا کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس نے اتنا زیادہ لوگوں کے کردار پر اثر ڈالا ہو۔ کنفیوشس کی پیدائش کو ڈھائی ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی لاکھوں کروڑوں چینی اس کی تعلیمات کو لفظ بہ لفظ دہراتے ہیں۔ تاہم یہ فلسفی کسی الہام کا دعویدار نہ تھا، بلکہ پرانے دانشمندوں کے اقوال جمع کر کے اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کرتا تھا۔ ابھی کنفیوشس کی عمر اکیس سال تھی کہ اس نے ان نوجوانوں کے لیے ایک درسگاہ کھولی جو اچھی حکومت اور اچھے کردار کے متعلق کچھ سیکھنا چاہتے تھے جب وہ اس درسگاہ کے قیام کے لیے شہنشاہ کے پایہ تخت میں پہنچا تو تائو مذہب کے بانی لائوزے سے اس کی ملاقات ہوئی۔
سینتالیس سال کی عمر میں اس کے وطن میں اس کو ایک سیاسی عہدہ دیا گیا جس سے اس کو حکومت کے متعلق اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا۔ اس کے نتائج اس قدر شاندار نکلے کہ آس پاس کی ریاستیں خوف زدہ ہو گئیں اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگیں۔ چنانچہ وہ تیرہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا گیا۔ اڑسٹھ سال کی عمر میں کنفیوشس جلا وطنی سے واپس آیا اور پھر آخر دم تک (479 ق م) اپنی قوم کے تاریخی مواد، نظموں، عوامی کہانیوں اور معاشرتی رسموں کو مرتب کرنے میں مصروف رہا۔
چین کے ایک اہم مذہب کنفیوشس ازم کا بانی کنفیوشس 551 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ وہ ایک فلسفی اور عالم تھا۔ کنفیوشس بچپن ہی سے مالی سختیوں اور نفسیاتی خلا کا شکار رہا۔ 15 سال کی عمر میں اسے سچ اور حق تلاش کرنے کی جستجو ہوئی اور وہ اپنا سارا وقت علم حاصل کرنے میں گزارنے لگا۔ بعد ازاں وہ چین کی ایک معروف جامعہ سے منسلک ہو گیا۔ کنفیوشس نے ایک نئی فکر کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایک مذہب میں تبدیل ہو گیا اور کنفیوشس ازم کہلایا۔
کنفیوشس کے شاگرد اسے کنگ فوزے یعنی استاد کنگ کہتے تھے۔ کنفیوشس نے 3 ہزار سے زائد افراد کو اپنا شاگرد بنایا۔ ان میں سے 70 سے زائد طالب علموں نے بطور دانشور شہرت پائی۔ اس عظیم مفکر نے اخلاقیات اور تعلیم پر زور دیا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں جن میں سب سے زیادہ شہرت ’گلدستہ تحریر‘ کو حاصل ہوئی۔ کنفیوشس کا انتقال 479 قبل مسیح میں ہوا۔ اس کے اخلاقی افکار کی پیروی کرنے والے مختلف ممالک میں موجود ہیں جن میں چین، تائیوان، ہانگ کانگ، مکاؤ، کوریا، جاپان، سنگاپور اور ویتنام شامل ہیں۔
آئیے کنفیوشس کے چند مشہور افکار پڑھتے ہیں۔
اگر تم اپنا سفر روکتے نہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کتنا آہستہ چلتے ہو۔
اس شخص سے کبھی بھی دوستی نہ کرو جو تم سے زیادہ اچھا نہ ہو۔
جب تم غصہ میں آؤ، تو اس کے بعد کے نتائج کے بارے میں سوچو۔
اگر تم یہ جان جاؤ کہ تم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، تب بھی تم اپنا مقصد تبدیل مت کرو، اپنے اعمال تبدیل کرو۔
اگر تم نے نفرت کی، تو تم ہار گئے۔
زندگی میں جو بھی کرو، اسے پورے دل اور دلچسپی کے ساتھ کرو۔
صرف ان لوگوں کی رہنمائی کرو، جو اپنی کم علمی کے بارے میں جانتے ہوں اور اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں۔
چھوٹی چیزوں پر اسراف کرنا بڑے نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔
اگر لوگ تمہارے پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تم آگے بڑھ رہے ہو۔
چیزوں کا خاموشی سے مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ چاہے کتنی ہی تعلیم حاصل کر لو، اشتیاق اور لگن کو برقرار رکھو۔
ہر چیز میں ایک خوبصورتی ہوتی ہے، لیکن اسے ہر شخص نہیں دیکھ پاتا۔
عظمت یہ نہیں کہ کوئی انسان کبھی نہ گرے، بلکہ کئی بار گر کر دوبارہ اٹھنا عظمت ہے۔
0 Comments