Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

مشہور لوگوں کے کتب خانے

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء کا کتب خانہ دور غلاماں میں صوفیاء کرام کی وجہ
سے کتب خانوں میں اور ان کے قیام میں غیر معمولی دلچسپی لی جانے لگی تھی۔ ان بزرگوں کی خانقاہوں سے منسلک و ملحق جو کتب خانے تھے ان میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء دہلوی کا کتب خانہ نہایت عمدہ تھا۔ اس کتب خانہ میں احیاء العلوم ’’کشف المحجوب‘‘ ’’قوت القلوب‘‘ اور امیر حسین کی ’’فوائد الفواد‘‘ اور دوسری بہت سی نادر روزگار کتابیں شب و روز طلبہ کے مطالعہ میں رہتیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے عزیز ترین نامور شاگرد امیر خسرو کو اپنے کتب خانہ کا نگران مقرر کیا۔ 
محمد شاہ تغلیق کا کتب خانہ عہد تغلق کتب خانوں کے اعتبار سے خاصا اہم ہے۔ سلطان محمد تغلق کا کتب خانہ نہایت قیمتی تھا۔ دہلی جو اس زمانے میں علم و ہنر کا مرکز تھا اور اس وقت تقریباً ایک ہزار کتب خانوں سے منور تھا۔ ان میں بہت سے کتب خانے علمی درس گاہوں سے منسلک تھے۔ ان میں ریاضی‘ ہیئت طب اور دوسرے بہت سے علوم پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ سلطان عالموں کو دعوت دیتا اور ان کی قدر دانی کرتا تھا۔ دور دراز سے آنے والا اگر کسی نسخے کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا تو وہ اس کا دامن زر و جواہر سے بھر دیتا تھا۔ وہ فنون لطیفہ کا دلدادہ متمدن‘ فاضل اور بلند پایہ شاعر تھا۔ نجوم‘ فلسفہ‘ ریاضی اور طبعیات میں یکساں مہارت رکھتا تھا۔ وہ سکندر نامہ اور تاریخ محمودی جیسی تصانیف کا کامل واقفیت رکھتا تھا۔ فن شعر گوئی میں کوئی سلطان سے بہتر نہ تھا۔

 دہلی سے دارالخلافہ دیوگری منتقل ہوا تو شہر میں بہت سے کتب خانوں کو نقصان پہنچایا۔ ابن بطوطہ 1341ء میں جب دہلی آیا تو وہ دہلی کو اس حالت میں دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ فیروز شاہ تغلق کا کتب خانہ سلطان فیروزشاہ ایک صاحب علم فرماں روا تھا اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے متعدد کام کیے۔ جگہ جگہ رفاہ عامہ کے لیے دینی مدرسے قائم کئے فیروز شاہ نے کتب خانوں کی ترقی و توسیع میں بھی خوب دلچسپی لی۔ اس نے اپنے کتب خانہ میں ایک اعلی معیاری دارالترجمہ قائم کیا جہاں رات دن مختلف مشرقی زبانوں سے فارسی اور عربی میں تراجم کا کام ہوتا تھا۔ نگر کوٹ کی فتح کے موقع پر سلطان کو سنسکرت زبان کی جو سینکڑوں کتابیں ملیں اس نے ان میں سے اکثر کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا اور اپنے کتب خانہ میں سنبھال کر رکھا۔ 

مشہور کتاب دلائل فیروز شاہی انہی میں سے ایک کتاب کا ترجمہ ہے۔ فیروز شاہ کو کتابوں سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ وہ خود صاحب علم و فلم تھا اور اہل علم و ہنر کی بڑی قدر کرتا تھا فتوحات فیروز شاہی اس کی خودنوشت کتاب ہے۔ سلطان نے ملک میں تعلیمی ترقی کے لیے جب بہت سے مدرسے اور کالج کھولے تو ان میں کتب خانوں کا قیام لازمی قرار دیا۔ چنانچہ مدرسہ فیروز شاہی کا کتب خانہ اپنی مثال آپ تھا۔ اسی مدرسہ میں فارسی‘ عربی‘ ہندی‘ ترکی زبان کی نفیس کتابوں کا ذخیرہ محفوظ کیا گیا تھا۔ فیروزشاہ تغلق کے فاضل درباریوں میں ایک تاتار خان تھا وہ مفسر بھی تھا ۔ اس نے بہت سی تفسیروں کو سامنے رکھ کر ایک جامع تفسیر لکھی۔ اسی طرح قانون پر کتابیں جمع کیں اور ایک مستند فتاویٰ تحریر کیا یہ فتاویٰ 30 جلدوں پر مشتمل تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔

سکندر لودھی کا کتب خانہ (1489-1517)ء لودھی خاندان میں سکندر لودھی سب سے زیادہ قابل‘ معاملہ فہم اور دین دار بادشاہ کہا جاتا تھا۔ وہ علم اور عالموں کا بڑا قدردان تھا اور خود بھی بہت اچھا شاعر تھا۔ اس نے دوسری زبانوں کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرانے کے لیے معقول انتظام کیا ہوا تھا۔ سلطان کیونکہ خود مطالعہ کا بڑا شوقین تھا۔ اس لیے پورے خاندان اور دربار میں علم و ادب کی محفلوں کا چرچا رہتا تھا۔ علم طب پر سنسکرت اور عربی زبانوں کی مشہور کتابیں ترجمہ کروا کے کتب خانہ میں رکھی گئی تھیں۔ اس طرح اس کے دور حکومت میں قصر شاہی کے کتب خانہ میں نادر اور عمدہ کتابوں کا وافر ذخیرہ فراہم کیا گیا تھا۔ اس عہد میں ہندوستانی طریقہ علاج پر کتابیں لکھی گئیں۔ سلطان لودھی کے دربار میں نامور خوش نویس اور قابل لوگ جمع تھے۔ 1510ء میں محمد بن شیخ ضیاء نے ایک فارسی تصنیف فرہنگ سکندری تیار کی۔ سکندر لودھی کی نظر عنایت سے اس کی پوری سلطنت میں بے شمار کتب خانے وجود میں آئے۔

اشرف علی

Post a Comment

0 Comments