میں ضلع سرگودھا کی تحصیل خوشاب کے ایک پہاڑی علاقہ سون سیکسر کے ایک گائوں انگہ میں پیدا ہوا۔ میری تاریخ پیدائش 20 نومبر 1916ء ہے۔ ابتداء میں گائوں کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ ساتھ ہی وہاں کے پرائمری سکول میں داخلہ لیا اور پرائمری وہیں سے پاس کی۔ بلکہ ایک طرح سے اعزاز کے ساتھ پاس کی۔ اس زمانے میں چوتھی جماعت پرائمری کی آخری جماعت ہوتی تھی۔ ہماری جماعت کے 4 منتخب لڑکوں کو خوشاب میں وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کے لیے بھیجا گیا میں بھی ان میں شامل تھا۔ 4 میں سے ہم 3 لڑکوں نے کامیابی حاصل کی اور مجھے آٹھویں جماعت تک وظیفہ ملتا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اسی موقع پر خوشاب میں زندگی میں پہلی مرتبہ سائیکل دیکھی اور ریل گاڑی کو لوہے کی پٹڑیوں پر بھاگتے دیکھا۔
میں پرائمری سکول کے اوّل مدرس منشی غلام حیدر کی شخصیت‘ محنت اور لگن سے بہت متاثر ہوا۔ وہ میرے رشتہ دار بھی تھے مگر سکول میں ان کے سامنے سب لڑکے برابر ہو جاتے تھے۔ معمولی سی غلطی کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ کڑی جسمانی سزا دیتے تھے مگر سکول میں اور پھر گھر میں اتنی محنت سے پڑھاتے تھے کہ ان کے مزاج کی سختی پس منظر میں چلی جاتی۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد میں اپنے چچا اور سرپرست پیر حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلا گیا۔ وہ ان دنوں وہاں ریونیو اسسٹنٹ تھے۔ وہاں میں نے گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل سکول میں داخلہ لیا۔ ان دنوں نویں اور دسویں جماعتیں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج کیمبل پور سے وابستہ تھیں۔ چنانچہ مڈل پاس کرتے ہی میں کالجیٹ ہو گیا پھر چچا جان کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا وہ شیخوپورہ میں تشریف لے آئے چنانچہ میں نے گورنمنٹ ہائی سکول شیخوپورہ میں داخلہ لیا.
ان دنوں مشہور شاعر ن م راشد کے والد جناب فضل الہی چشتی وہاں کے ہیڈ ماسٹر تھے، میں نے میٹرک کا امتحان وہیں سے پاس کیا۔ میں مڈل کی جماعتوں میں عربی کے استاد جناب غلام ربانی عزیز سے خاصا متاثر ہوا آپ مشہور ادیب ڈاکٹر غلام جیالنی برق کے بڑے بھائی ہیں اور خود بھی اعلی درجے کے مصنف تھے ان کی سنجیدگی اور صرف اپنے کام سے کام رکھنے کی روش مجھے پسند آئی۔ انٹرمیڈیٹ کالج میں بھی عربی ہی کے استاد پروفیسر انعام اللہ بیگ میری نظر میں مثالی استاد تھے میرا بچپن سراسر شرارتوں سے عبارت ہے میں پڑھائی میں بھی خاصا تیز تھا اور شرارت میں بھی۔ شاید یہی ہجہ ہے کہ میں نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں بچوں کی شرارت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔
بے شمار شرارتوں میں سے ایک شرارت یہ ہے کہ میں نے مکی کے بھٹوں کے بالوں سے مہندی رنگ کی داڑھی اور مونچھیں بنا کر لگا لیں۔ سر پر بڑا سا پگڑا باندھ لیا۔ قمیض کے نیچے بہت سے کپڑے ٹھونس لیے جس سے میری توند ابھر کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ پھر میں نے ہاتھ میں عصا لیا اور اپنے خاندان کی حویلی کے ایک ایک گھر میں جھانکا اور خواتین کی چیخیں نکلوا دیں۔ حویلی میں بہت سخت پردہ تھا سو ایک اجنبی معمر مرد کو اپنے سامنے دیکھ کر خواتین کا خوفزدہ ہو جانا لازمی تھا۔ دوسری شرارت بھی سن لیجئے کہ میں نے داستان امیر حمزہ میں کہیں پڑھ لیا کہ عمروعیار نے اپنے استاد کو تنگ کرنے کے لیے انہیں جمال گھوٹا کھلا دیا تھا اور کئی دن تک اسہال کے مریض رہے تھے میں نے ایک پنساری سے جمال گھوٹا لیا اور جب گھر کے اندر سے ملازمین کے لیے کھانا آیا تو جمال گھوٹا سب پلیٹوں اور لسی کے جگ میں تجربتاً ملا دیا۔ بے چارے ملازم اور چپڑاسی بیت الخلاء کے چکر لگا لگا کر نڈھال ہو گئے اور چچا جان کو انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ جمال گھوٹا کی کچھ زیادہ ہی مقدار استعمال ہو گئی تھی۔
بچپن کا ایک ناقابل فراموش واقعہ تو یہ ہے کہ میں نے گھر سے پنسل کے لیے جو پیسے لیے ان سے ریوڑیاں خرید کر کھا لیں اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ہم جماعت یاسین کے بستے میں سے ایک نئی پنسل چوری کر کے اپنے بستے میں رکھ لی۔ امی کو جا کر یہی پنسل دکھائی کہ خرید لایا ہوں۔ انہوں نے اس کا سرا تھوڑا سا تراشا اور وہاں ریشم کے دھاگے سے ریشم کا پھول باندھ دیا۔ پنسل کی صورت بالکل بدل گئی مگر اس کے باوجود میں ایک ماہ تک پنسل سکول نہ لے گیا اور جس روز لے گیا اسی روز پکڑا گیا۔ یاسین نے پنسل دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ اس کی گم شدہ پنسل ہے۔ ہماری کلاس کو ماسٹر محمد حیات پڑھا رہے تھے انہوں نے مجھے پاس بلا کر پوچھا کہ سچ سچ بتائو یہ پنسل کس کی ہے؟ میں نے کڑک جواب دیا ’’میری ہے‘‘ انہوں نے میرے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان طلباء کی پنسلیں رکھ دیں۔ میری انگلیوں کو زور سے دبایا اور میں چیخ اٹھا۔ ماسٹر محمد حیات نے ایک بار پھر میرے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا ’’کس کی ہے؟‘‘ اور میں نے درد سے بل کھاتے ہوئے کہا یاسین کی ہے۔ اس کے بعد میں نے چوری کی جرات کبھی نہ کی۔
جب بھی خیال آیا انگلیوں میں پھوڑے سے بیدار ہو گئے۔ سکول میں سبھی مضامین سے دلچسپی رہی بطور خاص شعر و ادب سے ،تاریخ سے ،جغرافیے سے اور جیومٹری سے۔ اگر جان جاتی تھی تو حساب اور الجبرے سے۔ میٹرک پاس کرنے کی مسرت کا عنوان یہ تھا کہ حساب الجبرے سے چھٹکارا ملا۔ ٹوٹے پھوٹے شعر تو میں بچپن میں کہہ رہا تھا مگر میں نے پہلی باقاعدہ نظم جنوری 1931ء میں کہی جب میں میٹرک کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھا یہ مولانا محمد علی جوہر کا مرثیہ تھا۔ میں پرائمری سے مڈل تک بیشتر وقت اپنی کلاس کا مانیٹر رہا۔ پھر جب میں ساتویں آٹھویں میں تھا تو ریڈ کراس سوسائٹی نے مضامین کا کل پنجاب مقابلہ کیا اور میں اس مقابلے میں اول رہا۔ ریڈ کراس والوں کی سند اب تک میرے کاغذات کے انباروں میں کہیں محفوظ پڑی ہے۔ شاید کوئی ایسا کھیل ہو جو میں نہ کھیلا ہوں ٹینس‘ ہاکی‘ کبڈی سے لے کر پنگ پانگ (ٹیبل ٹینس) اور کیرم اور تاش تک۔ سبھی کھیل کھیلا ہوں مگر پیشہ وارانہ مہارت والی بال میں حاصل کی۔ لٹو بھی چلائے، گلی ڈنڈا بھی کھیلا، پتنگ بھی اڑائی اور پتنگ اڑانے سے مجھے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک اور ناقابل فراموش واقعہ یاد آیا۔ میں اپنے ننھیال میں اپنے ماموں زاد بھائی محبوب الہی مرحوم کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ نیچے صحن میں لڑکیوں نے ترنجن کی محفل سجا رکھی تھی۔
چرخے گھوں گھوں کر رہے تھے اور سوت کاٹا جا رہا تھا۔ ہم دونوں بھائی چھت پر پتنگ اڑانے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہوا ساکن تھی آخر میں نے محبوب الہی سے کہا کہ پتنگ اور ڈور میرے حوالے کرو۔ تب میں پتنگ اڑانے کے لیے چھت پر تیزی سے الٹے قدموں بھاگا مگر یہ بھول گیا کہ میں چھت پر ہوں۔ چنانچہ چھت ختم ہو گئی اور میں نیچے ترنجن بیٹھی لڑکیوں کے ہجوم میں جا گرا۔ میں بچپن میں خوب موٹا متھنا تھا۔ سو مجھے کوئی چوٹ نہ آئی مگر لڑکیوں میں سے تین چار کو بہت چوٹیں آئیں۔ بچوں کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے ملک سے اپنی تہذیب سے، اپنی روایات سے، اپنی زبانوں سے ،اپنے گیتوں سے ،محبت کرنا سیکھو کیونکہ یہی محبت تمہیں انسانیت کے ساتھ محبت کرنا سکھائے گی۔
احمد ندیم قاسمی
(مشہور زمانہ لوگوں کا بچپن سے ماخوذ)
احمد ندیم قاسمی
0 Comments