ہمیشہ دیر کردیتا ہوں، کا شکوہ کرتے شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں 1927 میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے۔ یہاں وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویژن سے وابستہ رہے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اردو میں ان کے 13 شعری مجموعے شایع ہوئے۔ جن میں 'تیز ہوا اور تنہا پھول'، 'جنگل میں دھنک'، 'دشمنوں کے درمیان شام'، 'سفید دن کی ہوا'، 'سیاہ شب کا سمندر'، 'ماہ منیر'، 'چھ رنگین دروازے'، 'آغاز زمستاں' اور دیگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے، پنجابی میں بھی ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔ منیر نیازی کا 26 دسمبر 2006 کو لاہور میں اِس البیلے شاعر کا انتقال ہوا۔ منیر نیازی سرتاپا شاعر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ان کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا،اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے یہ غزل
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نیازی کو کبھی فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں سے بیشتر منیر نیازی ہی کی لکھی گئی ہیں مثلا،
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو، اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو،
یا یہ غزل 'آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی،بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی'، اسی طرح 'جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سوجا' جیسی قابل ذکر غزلیں بھی شامل ہیں۔
ان کی اپنی زندگی کی بہترین اوربھرپور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔
0 Comments