اسلامی دنیا میں جن شعرا نے شہرت ِدوام حاصل کی اور جن کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے، اُن میں ایک نام سعدی شیرازی کا بھی ہے۔ سعدی شیرازی کی دانش اور حکمت سے بھری شاعری اور حکایات آج بھی عوامی مقبولیت کا تاج پہنے ہوئے ہیں۔ یہ حکایات آٹھ سو سال گزرنے کے باوجود عوامی استفادے کی حامل ہیں اور ان میں موجود دانش اور حکمت کی تابانی اور اثرانگیزی کم نہیں ہوئی ہے۔ سعدی شیرازی کی کتابوں گلستان سعدی اور بوستان سعدی کے دنیا کے سبھی بڑی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ سعدی، ایران کے شہر شیراز میں 1210ء میں پیدا ہوئے۔ اسی شہر شیراز کی مناسبت سے ان کے نام کے ساتھ شیرازی کا لاحقہ لگا۔ بہت چھوٹی عمر میں یتیم ہوجانے کے المیے نے ان کی ذہنی و جذباتی نشوونما پر گہرے اثرات مرتب کیے کیونکہ اسی سانحے کے بعد انہیں کسمپرسی اور غربت کا سامنا کرنا پڑا۔
مذکور نامساعد حالات نے سعدی کو اپنے شہر سے نکل جانے پر مجبور کیا۔ وہ بغداد چلے گئے، جہاں انہیں امید تھی کہ روزگار کے ہی نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے بھی بہتر مواقع حاصل ہوں گے۔ سعدی شیرازی نے جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد متعدد ملکوں کی سیاحت کی۔ وہ شام، مصر، عراق، انتولیا بھی گئے، جہاں بڑے شہروں کی زیارت کی، گاہکوں سے بھرے پررونق بازار دیکھے، اعلیٰ درجہ کے فنون لطیفہ کے نمونوں سے محظوظ ہوئے اور وہاں کے علما اور فن کاروں سے ملاقاتیں کیں۔ آخر کار وہ جہادی صوفیوں کے ایک گروہ میں شامل ہوگئے، جو صلیبی جنگوں میں شریک تھا۔ ان کے ساتھ مل کر انہوں نے جنگیں بھی لڑیں۔ ایک ایسی ہی جنگ میں وہ جنگی قیدی بنے اور سات سال اس کیفیت میں گزارے۔
یک غلام کی حیثیت سے وہ خندقیں کھودنے کے کام پر متعین رہے۔ مملوکوں نے تاوان ادا کیا، تو جنگی قیدیوں کو رہا کیا گیا، جن میں سعدی شیرازی بھی شامل تھے۔ قید سے رہائی کے بعد سعدی شیرازی یروشلم چلے گئے۔ وہاں سے مکہ اور مدینہ کا رخ کیا۔ بیس برس کی طویل مسافت کے بعد سعدی شیرازی آخر کار اپنے آبائی وطن ایران پہنچے، جہاں انہیں اپنے پرانے رفقا کی صحبت میسر آئی۔ خراسان میں ان کی ملاقات ایک ترکی امیر طغرل سے ہوئی ،جن سے بہت جلد گہری دوستی ہوگئی۔ وہ سعدی شیرازی کو ساتھ لیے سندھ گیا ،جہاں انہیں پیر پتر سے ملنے کا موقع ملا، جو ایرانی صوفی شیخ عثمان مروندوی کے پیروکار تھے۔ اس سفر میں وہ برصغیر بھی آئے اور وسطی ایشیا کے ممالک کی بھی سیر کی ،جہاں وہ منگول حملوں سے بچ رہنے والے مسلمانوں سے ملے۔ یہی طغرل بعدازاں سلطنت دہلی کی ملازمت میں داخل ہوگیا۔
اس نے سعدی شیرازی کو بھی اپنے ہاں مدعو کیا۔ سعدی شیرازی، جو ثقافتوں کی رنگارنگی کے شائق تھے، اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے چل پڑے اور دہلی اور گجرات میں جا کر رہے۔ اس دور میں انہیں سومناتھ کے تاریخی مندر کی سیر کا بھی موقع ملا۔ 1257ء میں سعدی شیرازی اپنے آبائی شہر شیراز لوٹے۔ تب تک آپ عمر کی چار دہائیاں گزار چکی تھیں اورپانچویں دہائی کے اختتامی برس میں تھے۔ اسی برس انہوں نے اپنی کتاب بوستان سعدی پر کام ختم کیا۔ اتنے برسو ں میں جو کچھ لکھا تھا، اسے اکٹھا کیا اور کتابی صورت دی۔ان برسوں میں وہ ایک شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بناچکے تھے۔ شیراز میں واپسی پر ان کا استقبال نہایت شان و شوکت سے کیا گیا۔ عوام کی بڑی تعداد اپنے نامور شاعر کو خوش آمدید کہنے کے لیے شہر کی سڑکوں پر اکٹھی ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد سعدی نے بقیہ عمر شیراز ہی میں بسر کی اور اپنا بیشتر وقت مشق ِشعروسخن میں صرف کیا۔ سعدی شیرازی کی شہرہ آفاق کتابیں بوستان سعدی اور گلستان سعدی بالترتیب 1257ء اور 1258ء میں مکمل ہوئیں۔ طویل سفروں سے واپسی پر شیراز میں مقیم ہوجانے کے بعد دو سال کے وقفے میں۔
بوستان سعدی شعری مجموعہ ہے، جس میں اعلیٰ اخلاقی و مذہبی اقدار اور صوفیا و علما دین کے طرز عمل سے متعلق رزمیہ انداز میں شعر موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں گلستان سعدی میں یہی حکایات نثر کے پیرایے میں اپنا اظہار پاتی ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور حکایتوں کے مجموعہ کی صورت میں ہے، جن میں فہم و دانش کے نکات کو موثر انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ سعدی شیرازی کا اندازِ فکر و نظر درویشانہ ہے۔ وہ آلائشات دنیاوی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات سے زندگی کے اسراروں پر سے پردہ ہٹانے کا فن جانتے ہیں اور انسانی موجودگی کی ہیئت کذائی کو تصویر کرتے ہیں۔ سعدی شیرازی کے پاس ایسی گہری نگاہ ہے، جو معمول کے واقعات سے زندگی کے گہرے اسرار بے نقاب کرنے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔ بوستان میں خاص کر وہ روحانی بالیدگی پر اصرار کرتے ہیں اور دنیا کو روحانی قدرومنزلت حاصل کرنے کے لیے ایک تختہ مشق تصور کرتے ہیں۔
وہ خانقاہ میں بیٹھ کر تبلیغ کرتے ہوئے صوفی یا عالم دین کی نسبت شہر کی رونقوں میں رہنے اور کاروبار کے دوران اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاس داری کرنے والے انسان کو افضل تر قرار دیتے ہیں۔ سعدی شیرازی سفری تاجر اور صوفی کے امیجز کو اپنی شاعری اور حکایات میں اکثرو بیشتر استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہے، جو انہوں نے تمام عمر ادا کیا اور حقیقتاً اسی کردار کی نگاہ سے دنیا کو دیکھا اور سمجھا۔ سعدی شیرازی کی غزلیات ان کے صوفیانہ خیالات سے آویزاں ہے۔عالمی ادب میں سعدی شیرازی کی شہرت کا سبب ان کے دو ہی کتابیں بنی ہیں، جو انہیں رہتی دنیا تک زندہ رکھنے کی طاقت کی حامل ہیں۔ یہ کتابیں گلستان سعدی اور بوستان سعدی ہی ہیں۔ آج بھی یہ کتابیں دنیا بھر میں فارسی کے نصاب کا بنیادی حصہ مانی جاتی ہیں۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
محمدعاصم بٹ
0 Comments