سنسکرت زبان کا عظیم ادبی شاہکار ’شکنتلا‘ کالی داس سے منسوب کیا جاتا ہے۔
اس ناٹک کو دنیا کے عظیم کلاسیک میں شمار کیا جاتا اوراپنے ادبی قد کاٹھ میں شیکسپیئر کے ہیملٹ اور سوفو کلیز کے آڈیپس کے برابر مانا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کا اُردو سمیت دنیا کی سبھی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ کالی داس نے اس ناٹک کے علاوہ بھی متعدد ناٹک تحریر کیے،لیکن جیسی شہرت اس ناٹک کو حاصل ہوئی، ان کی کسی دوسری تحریر کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ ناٹک راجہ دشونت کی کہانی کے گرد گھومتا ہے، جو جنگل میں شکار کے دوران ایک سنیاسی کی لے پالک بیٹی شکنتلا سے ملتا، اس کے عشق میں مبتلا ہوجاتا اور اس سے شادی کرلیتا ہے، لیکن بعدازاں اپنے محل میں پہنچ کر وہ اپنی یادداشت کھو دیتا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد جس دوران میں اس کی بیوی شکنتلا بڑی کٹھنائیوں سے گزرتی ہے، وہ اپنی یادداشت پا لیتا اور شکنتلا سے جا ملتا ہے۔
یہ کہانی شکنتلا کی درد بھری زندگی کی روداد ہے۔ کہانی میں موڑ تب آتا ہے جب راجہ دشونت اپنی انگوٹھی کھو دیتا ہے، جس سے اس کی یادداشت جاتی رہتی ہے، اسی باعث وہ شکنتلا کو نہیں پہچان پاتا جو جنگل سے نکل کر اس کے محل میں آتی ہے۔ وہ اسے محل سے نکال دیتا ہے، تاہم کہانی کے آخرمیں وہ کسی طور اس انگوٹھی کو حاصل کرلیتا ہے، جسے دیکھ کر اس کی یادداشت لوٹ آتی ہے۔ یہ انگوٹھی وہ شکنتلا کو دے کر آیا تھا، جس سے وہ غلطی سے دریا میں گر جاتی ہے، جہاں ایک مچھلی اسے نگل لیتی ہے۔ ایک مچھیرا مچھلی کے پیٹ میں حاصل ہونے والی انگوٹھی پر شاہی مہر پہچان کر اسے دشونت کو پہنچاتا ہے ،جس پر اس کی یادداشت لوٹ آتی ہے اور اسے افسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیسی زیادتی کی۔ وہ شکنتلا کو تلاش کرتا ہے۔ ناٹک کے آخر میں شکنتلا اور دشونت کا ملاپ ہوجاتا ہے۔ معروف سنگ تراش کیمیلی کلاؤڈل نے شکنتلا کا معروف زمانہ بت بھی بنایا۔ شکنتلا کو بنیاد بنا کر یورپ میں متعدد ڈرامے بھی لکھے گئے اور اس ناٹک کو بھی مسلسل سٹیج پر پیش کیا گیا۔ بھارت میں اسی ناٹک کی کہانی کو فلم ’ستری‘ میں پیش کیا گیا۔
کالی داس کی زندگی پر مبنی فلمیں اور ناٹک بھارت کی مختلف زبانوں میں تیار کیے گئے۔ مجموعی طورپر کالی داس سے تین ڈرامے منسوب کیے جاتے ہیں۔ شکنتلا کے علاوہ ان سے منسوب کیے جانے والے ناٹکوں میں ایک ناٹک ’مالویکا اور اگنی متر‘ شامل ہے ،جو راجہ اگنی متر کی کہانی کے گرد گھومتا ہے، جو مالویکا نامی ایک کنیز کی تصویر سے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب اس کی ملکہ کو خاوند کی اس دل بستگی کا علم ہوتا ہے، تو وہ طیش میں آجاتی اورمالویکا کو قید میں پھنکوا دیتی ہے۔ تیسرا ناٹک ’وکرم اور اروشی‘ ہے، جو پوروواس اور دیوی اُروشی کے عشق کی کہانی پر مبنی ہے۔ اس دیوی کو آسمانوں سے ایک غلطی کے نتیجے میں زمین پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس غلطی کے مطابق اس کی موت ایک فانی انسان کی حیثیت سے ہوگی اور وہ اس لمحہ واپس آسمانوں کو لوٹ آئے گی جب اس کا خاوند اس کے بچے کو دیکھے گا، تاہم بعدازاں مختلف واقعات کے نتیجے میں اس غلطی کو ختم کردیا جاتا ہے اور دیوتا ان دونوں کے پریم کو دیکھتے ہوئے انہیں زمین پر اکٹھے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
ناٹکوں کے علاوہ کالی داس کی تخلیقات میں دو بڑی نظمیں بھی شامل ہیں، جن کے نام یہ ہیں: رگھوومسا اور کمارسمبھوا۔ ان کے علاوہ متعدد مختصر نظمیں بھی کالی داس سے منسوب کی جاتی ہیں۔ جرمن شاعر گوئٹے اور ہرڈر کالی داس کی نظموں اور ناٹکوں کے معترفین میں شامل تھے۔ سنسکرت زبان کا یہ پہلا شاعر تھا، جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا ۔ بعدازاں جرمن اور دیگر یورپی زبانوں میں اس نظم کو ڈھالا گیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ بھر میں کالی داس کی شاعری کے اثرات پھیل گئے۔ کالی داس کی نظم میگھا دت دنیا کی عظیم نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ 1960ء کی دہائی میں پہلی بار اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا، جس سے دیگر زبانوں میں اس کے ترجمہ کی راہیں کھلیں اور دنیا اس جوہر نایاب کے کمال فن سے متعارف ہوئی۔ سنسکرت زبان کا عظیم شاعر اور ڈراما نگار کالی داس بھار ت کے شہر اجین یا کالنگا کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا، تاہم ان کے مقام پیدائش کے حوالے سے ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ اس کے کلام میں اجین کے لیے ان کی محبت اور اس کے قدرتی مناظر سے ان کے لگاؤ کی وجہ سے انہیں اسی علاقے کا باشندہ تصور کیا جاتا ہے، تاہم کالی داس نے کالنگا کے راجہ ہیمانگد کی مدح میں بھی نظمیں لکھیں، جس سے اس علاقہ اور اس کی راجہ سے ان کی وابستگی کا سراغ ملتا ہے۔ چند ماہرین کالی داس کو کشمیر کا باشندہ قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں کشمیر کی لوک کہانیوں اور استعاروں کو استعمال کیا ہے۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
اس ناٹک کو دنیا کے عظیم کلاسیک میں شمار کیا جاتا اوراپنے ادبی قد کاٹھ میں شیکسپیئر کے ہیملٹ اور سوفو کلیز کے آڈیپس کے برابر مانا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کا اُردو سمیت دنیا کی سبھی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ کالی داس نے اس ناٹک کے علاوہ بھی متعدد ناٹک تحریر کیے،لیکن جیسی شہرت اس ناٹک کو حاصل ہوئی، ان کی کسی دوسری تحریر کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ ناٹک راجہ دشونت کی کہانی کے گرد گھومتا ہے، جو جنگل میں شکار کے دوران ایک سنیاسی کی لے پالک بیٹی شکنتلا سے ملتا، اس کے عشق میں مبتلا ہوجاتا اور اس سے شادی کرلیتا ہے، لیکن بعدازاں اپنے محل میں پہنچ کر وہ اپنی یادداشت کھو دیتا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد جس دوران میں اس کی بیوی شکنتلا بڑی کٹھنائیوں سے گزرتی ہے، وہ اپنی یادداشت پا لیتا اور شکنتلا سے جا ملتا ہے۔
یہ کہانی شکنتلا کی درد بھری زندگی کی روداد ہے۔ کہانی میں موڑ تب آتا ہے جب راجہ دشونت اپنی انگوٹھی کھو دیتا ہے، جس سے اس کی یادداشت جاتی رہتی ہے، اسی باعث وہ شکنتلا کو نہیں پہچان پاتا جو جنگل سے نکل کر اس کے محل میں آتی ہے۔ وہ اسے محل سے نکال دیتا ہے، تاہم کہانی کے آخرمیں وہ کسی طور اس انگوٹھی کو حاصل کرلیتا ہے، جسے دیکھ کر اس کی یادداشت لوٹ آتی ہے۔ یہ انگوٹھی وہ شکنتلا کو دے کر آیا تھا، جس سے وہ غلطی سے دریا میں گر جاتی ہے، جہاں ایک مچھلی اسے نگل لیتی ہے۔ ایک مچھیرا مچھلی کے پیٹ میں حاصل ہونے والی انگوٹھی پر شاہی مہر پہچان کر اسے دشونت کو پہنچاتا ہے ،جس پر اس کی یادداشت لوٹ آتی ہے اور اسے افسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیسی زیادتی کی۔ وہ شکنتلا کو تلاش کرتا ہے۔ ناٹک کے آخر میں شکنتلا اور دشونت کا ملاپ ہوجاتا ہے۔ معروف سنگ تراش کیمیلی کلاؤڈل نے شکنتلا کا معروف زمانہ بت بھی بنایا۔ شکنتلا کو بنیاد بنا کر یورپ میں متعدد ڈرامے بھی لکھے گئے اور اس ناٹک کو بھی مسلسل سٹیج پر پیش کیا گیا۔ بھارت میں اسی ناٹک کی کہانی کو فلم ’ستری‘ میں پیش کیا گیا۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
0 Comments