کنفیوشس کا فلسفہ حیات سقراط کی طرح انسان اور ریاست کی اخلاقی تعمیر و
ترقی اور انصاف کو اپنا موضوع بناتا ہے، لیکن سقراط کی نسبت کنفیوشس کے فلسفہ حیات نے اپنی کم ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود چینی قوم پر انمٹ اثرات مرتب کیے۔ وہاں اشتمالی حکومت کے قیام تک قریباً دو ہزار سال اس فکر نے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی اور اُن کی زندگیوں کو ایک ترتیب دی۔ چینی قوم کی تعمیر و ترقی میں جتنا کردار کنفیوشس کا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اب اشتراکی سوچ نے کنفیوشس کے فلسفہ حیات کی تابناکی کو گہنا دیا ہے اور اسے پہلے جیسا درجہ قبولیت حاصل نہیں رہا، اتنا بھرپور کردار کوئی دوسرا فلسفہ ادا نہیں کرسکا۔ کنفیوشس کو چینی تاریخ کا سب سے بڑا استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
کنفیوشس کی وفات کے بعد اُن کے اقوال ِزریں کو ’Analects‘ کی صورت میں
مرتب کیا گیا، لیکن ایک طویل عرصے تک یہ غیر منظم انداز میں ایک سے زائد جگہوں پر بکھرے رہے۔ ایسے ادوار بھی آئے،جب کنفیوشس کے ماننے والوں کو شاہی عتاب کا سامنا رہا اور اُنھیں اپنی جان بچانے کے لیے روپوش ہونا پڑا۔ چن سلسلہ شاہی کے دورِ حکومت میں کنفیوشس کے افکار کو سرکاری سطح پر رد کیا گیا اور اُن کے ماننے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ تبھی شاید فنا ہوجانے کے خوف کے تحت ان افکار کو کنفیوشس مت کے علماء نے ایک مربوط انداز میں کتابی صورت میں محفوظ کرلیا۔ کنفیوشس شمالی چین کی ایک چھوٹی سی ریاست لیو میں ایک سپاہی اور درباری اہلکار کے گھر پیدا ہوئے۔اُن کا سن پیدائش 551 قبل مسیح قرار دیا جاتا ہے ۔ بہت چھوٹی عمر میں اُن کے والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں اُنھیں تعلیم مکمل کیے بغیر ہی عملی زندگی کا آغاز کرنا پڑا۔
ایک معمولی سرکاری عہدے تک رسائی پانے تک کنفیوشس نے چرواہے، کتاب فروش اور گوالے کے طور پر بھی کام کیا۔ عملی زندگی کے ابتدائی برس کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔ کنفیوشس 23 برس کے تھے، جب اُن کی والدہ کا انتقال ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ قرار دیتے تھے۔ بطور کلرک نوکری حاصل کرنے کے بعد کنفیوشس نے وزیر کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔ وہ اپنے افکار کو سیاسی میدان میں لاگو کرنے کے خواہاں تھے اور ایسے حکمران کو تخت پر دیکھنا چاہتے تھے، جو اہل ِنظر اور صاحبِ علم بھی ہو۔ شاہی نوکری کے دوران وہ اسی خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے ایک شاہی بغاوت میں شریک ہوئے، لیکن بغاوت کی ناکامی کے باعث وہ شاہی عتاب کی زد میں آئے۔
یہی عمر کا وہ حصہ تھا جب اُنھوں نے سفر گردی کو اپنی زندگی کا طور بنالیا اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کرکے طویل سفر پر نکل کھڑے ہوئے، تاہم جب سفر سے لوٹے، تو وہ عمر عزیز کے 68 برس گزار چکے تھے۔ اس دوران وہ ایک سفری استاد کی حیثیت سے اپنے افکار کی تعلیم دیتے، اپنے حلقۂ ارادت منداں کو وسیع کرتے اور مختلف ریاستوں کے درباروں میں اپنے سیاسی افکار کی عملی تعبیر کے لیے کوشش کرتے رہے۔ 78 برس کی عمر میں اپنے وطن لوٹنے پراُنھوں نے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی، لیکن اُنھیں وہاں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھنے کی زیادہ مہلت نہیں ملی۔ 479ء اُن کی وفات کا سال مانا جاتا ہے۔ کنفیوشس ازم ایک فکری نظام ہے، لیکن یہ کوئی مذہب نہیں، نہ ہی کنفیوشس نے کبھی اسے ایک مت یا مسلک کی صورت میں پیش کیا۔ اُنھوں نے مابعدالطبعی مسائل میں دلچسپی لی، جن کی بنیاد پر مذاہب اپنا اخلاقی اور معاشرتی نظام استوار کرتے ہیں۔
اُن کی دلچسپی کا مرکز انسان کی اخلاقی اور سیاسی شخصیت کی تعمیر و ترقی تھا۔ روحانی معاملات میں کنفیوشس نے عمداً کبھی کوئی رائے نہیں دی، لیکن چینیوں نے کنفیوشس مت کو ایک مذہب ہی کی صورت میں قبول کیا۔ آج یہ چین کے پانچ بڑے مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے اور وہاں بدھ مت کے بعد اس کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کنفیوشس مت کا سب سے زیادہ اصرار اخلاقی کردار کی تعمیر پر ہے۔ علم کے حصول کو بھی وہ اخلاقی فضیلت قرار دیتے ہیں۔ اخلاص، نیک نیتی، ضبط نفس، ایثار، اعلیٰ ترین فضیلتیں ہیں جبکہ بہترین اخلاقی اقدار روایت سے مربوط ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ کنفیوشس، قدیم چینی روایت کے ایسے دلدادہ تھے کہ خود کو اس کا خوشہ چیں قرار دیتے۔ اپنے اقوال ِزریں کو بھی وہ اسی روایت سے منسوب کرتے اور خود کو اُن کا خالق تصور نہیں کرتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ چینی روایت و ثقافت ایسی تمام اقدار کی حامل ہے، جن سے نئی دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری اسباب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ اخلاقی فلسفہ مذہبی عبادات اور خیرات، سماجی و سیاسی اداروں اور روز مرہ آداب ِزندگی سے متعلق اصول و قوانین پر مشتمل ہے۔ اسی اخلاقی فلسفے پر کنفیوشس نے اپنے سیاسی خیالات کی بنیادیں استوار کیں۔ایک باکردار شخص غیر قانونی فعل سے احتراز کسی طرح کے احساس ندامت سے بچنے کے لیے کرے گا،یوں محض قانون شکنی کی سزا ہی کافی نہیں، انسان کو جرم سے دور رکھنے کے لیے بلکہ اس میں کردار کی سطح پر احساس ندامت اور احساس جرم پیدا کیا جانا ضروری ہے تاکہ اگر وہ قانو ن کی زد میں آنے سے بچ جائے، پھر بھی اپنے ضمیر کی آواز کو خاموش نہ کروا پائے۔ کنفیوشس بادشاہت کے خلاف نہیں تھے، لیکن حکمرانوں کے آمرانہ رویے کو غیر اخلاقی اور ناقابل ِقبول قرار دیتے اور اُن کے اختیارات کو محدود کرنے پر اصرار کرتے تھے۔
وہ عوام کے ساتھ نرم اور منصفانہ رویہ کو حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ عوام کو صالح حکمرانوں کی اطاعت کی تلقین کرتے ہیں۔ قدیم اخلاقی و سماجی معیارات اُن کو بھاتے تھے اور وہ لوگو ں کو اُنھیں اپنانے کا درس دیتے۔ کنفیوشس کا فلسفہ تعلیم 6 فنون پر مشتمل ہے: تیر اندازی، خوش نویسی، موسیقی، رسوم، حساب داری اور بگھی بانی جبکہ تعلیم یافتہ آدمی سے کنفیوشس کی مراد ایک ایسے انسان کی ہے، جو دوسروں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کی تعلیم دے سکے، اسی سے جڑا ہوا اُن کا سیاسی فلسفہ ہے، جو احساس ذمہ داری پر قائم ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے، جو کردار کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں جبکہ کردار روایت میں موجود اقدار کی پیروی سے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اچھی حکومت کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’’اچھی حکومت اس نقطے پر قائم ہے کہ حکمران ایک حکمران کے طورپر کام کرے، وزیر وزیر کے طورپر، باپ باپ کے طور پر اور بیٹا بیٹے کے طورپر‘‘۔
حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضبط نفس حاصل کریں، اپنے محکوموں سے محبت کا سلوک روا رکھیں۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہئے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ قوانین کے اطلاق کے ذریعے سزائیں دے کر عوام کو جرم سے دور کرنے اور ان میں مثبت اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی نسبت کنفیوشس ایک دوسرا طریقہ کار اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اپنی اعلیٰ طرز ِحکومت اور رویے سے عوام میں اخلاقی فضیلت کو بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ سزا کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے احساس ندامت کی وجہ سے جرم اور گناہ سے گریز کریں۔ برے حکمران بری عوام کے خالق ہوتے ہیں۔ یوں حکمران کا اخلاقی طورپر اعلی درجے پر فائز ہونا کنفیوشس کے لیے معاشرتی اصلاح کے عمل میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ تمام عہدوں پر مطلوبہ اہلیت کے حامل افراد کی تعیناتی معاشرے کی اخلاقی عظمت کا تعین کرتی ہے۔
چن خاندان کے دورِ حکومت میں کنفیوشس کے افکار پر بندش قائم ہوئی اور اُن کے پیروکاروں کو اذیتیں جھیلنی پڑیں۔ کئی ایک کنفیوشس سکالروں کو تختہ دار کر دیاگیا اور اُن کی کتابوں کو سرعام نذر آتش کیا گیا، لیکن دوسری صدی قبل مسیح میں ہان خاندان کے دورِ حکومت میں کنفیوشس کے افکار کو ایک بار پھر قبولیت کا درجہ اور سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی۔ 140 قبل مسیح میں تانگ شاہی خاندان نے کنفیوشس کے فلسفہ کو چین میں سرکاری عہدوں کے حصول کے لیے دیئے جانے والے امتحانات کے لیے نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ 19ویں صدی تک اُن افکار پر مشتمل کتاب نصاب کا حصہ رہی۔ تاؤ مت چو نکہ مذہب اور انسانی زندگی کے سرّی پہلوؤں پر زیادہ اصرار کرتا ہے اور عمومی زندگی کے مسائل سے زیادہ نہیں الجھتا، اس لیے کنفیوشس مت کے پھیلاؤ میں چین میں موجود کوئی دوسرا فلسفہ رکاوٹ نہیں بنا۔
کنفیوشس کی تصانیف میں سب سے معروف اُن کے اقوال زریں پر مشتمل دستاویز ہے، جسے چینی زبان میں ’lunyu‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ یہ کتاب کنفیوشس کے شاگردوں نے اُن کی وفات کے بعد قریباً دوسری صدی قبل مسیح میں مرتب کی، تاہم اس کے علاوہ بھی کنفیوشس نے عصری اور ملازمتی ضرورتوں کے تحت چند تحریریں چھوڑیں۔ لیُو کے 12 ڈیوکوں کا تاریخی حال بھی ایک کتاب ’بہار اور خزاں کی دستاویزات‘ کی صورت میں درج کیا۔ اس کے علاوہ زندگی کے آخری برسوں میں، جو اُنھوں نے اپنے شہر میں تعلیم و تدریس میں گزارے، اُنھوں نے چینی کلاسیکی ادب کی کتابیں ’نغمات کی کتاب‘اور ’دستاویزات کا مجموعہ‘ کی ترتیب ِنو کا کام کیا۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
ترقی اور انصاف کو اپنا موضوع بناتا ہے، لیکن سقراط کی نسبت کنفیوشس کے فلسفہ حیات نے اپنی کم ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود چینی قوم پر انمٹ اثرات مرتب کیے۔ وہاں اشتمالی حکومت کے قیام تک قریباً دو ہزار سال اس فکر نے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی اور اُن کی زندگیوں کو ایک ترتیب دی۔ چینی قوم کی تعمیر و ترقی میں جتنا کردار کنفیوشس کا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اب اشتراکی سوچ نے کنفیوشس کے فلسفہ حیات کی تابناکی کو گہنا دیا ہے اور اسے پہلے جیسا درجہ قبولیت حاصل نہیں رہا، اتنا بھرپور کردار کوئی دوسرا فلسفہ ادا نہیں کرسکا۔ کنفیوشس کو چینی تاریخ کا سب سے بڑا استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
0 Comments