Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کراچی شہر کا قدیم ترین کتب خانہ فریئر ہال لائبریری

کراچی شہر کا قدیم ترین کتب خانہ فریئر ہال لائبریری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کتب خانے نے ایک صدی سے زائد کا سفر طے کرنے کے بعد آج بھی اپنے قارئین کی توجہ کی مرکزیت حاصل کر رکھی ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شروع میں اس کا نام جنرل لائبریری تھا۔ 1844ء میں اس کا آغاز ایک چھوٹے سے کتب خانے سے ہوا تھا۔ تب یہ فوجی افسروں کی خدمات کے لیے چھاؤنی میں قائم کیا گیا اور جب اس کے قدر دانوں میں اضافہ ہوا، تو 114 اکتوبر 1851ء کو اس کتب خانہ کو جم خانہ کے ایک کمرے میں منتقل کر دیا گیا اور اس وقت اس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا۔ جگہ کی قلت کے پیش نظر فریئر ہال کی تعمیر کا کام 1883ء میں شروع کیا گیا اور دو سال کے عرصہ میں 1885ء میں کراچی کی یہ خوبصورت عمارت ایک لاکھ اسی ہزار روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔

یہ عمارت دو منزلہ بلند و بالا مغربی تعمیر کا نمونہ تھی۔ اس میں نیچے کی منزل میں کتب خانہ رکھا گیا اور بالائی منزل پر آڈیٹوریم بنایا گیا۔ یہ آڈیٹوریم اس وقت بھی کراچی کی ثقافتی و ادبی محفلوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں سٹیج ڈرامے اکثر کیے جاتے تھے۔ اس کتب خانے نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اگست 1885ء میں یہ کتب خانہ کراچی بلدیہ کی زیر نگرانی دے دیا گیا۔ اس سے پہلے کتب خانہ کا انتظام چلانے کے لیے ایک کمیٹی مقرر تھی۔ آزادی کے بعد اس تاریخی علمی مرکز کو اپنے علمی قدر دانوں کی آمد سے محروم کر دیا گیا اور کافی عرصہ تک مقفل رہا۔ 10 دسمبر 1952ء کو کتب خانہ ایک بار پھر بلدیہ کراچی کو مکمل طور پر سونپ دیا گیا اور دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

اس زمانہ میں ایک چھوٹے سے حصے میں لائبریری اور بقیہ نچلی منزل اور بالائی منزل پر عجائب گھر بنا دیا گیا۔ 1969ء میں عجائب گھر یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو گیا، تو عمارت پوری طرح کتب خا نہ کے لیے استعمال میں لائی جانے لگی۔ اس سے قبل 1965ء میں اس کتب خانے کا بیشتر علمی مواد جو خوبصورت لکڑی کی الماریوں میں درجہ بندی اور کیٹلاگ کے ساتھ آراستہ کیا گیا تھا، جو نئی کتابیں آتی تھیں، ان کی درجہ بندی اور فہرست سازی کراچی لائبریری ایسوسی ایشن کے تحت چلنے والے سرٹیفکیٹ کورس کے طلبہ کو عملی مشق کے لیے یہاں لا کر اُن سے مکمل کرائی جاتی۔ ممبروں کو کتابیں جاری کی جاتی تھیں جبکہ مطالعہ کے لیے چھوٹی چھوٹی میزیں بھی بڑے کمرے میں الماریوں کے ساتھ رکھی گئی تھیں۔ کتب خانہ کا ماحول برطانیہ کی کسی کاؤنٹی کی چھوٹی لائبریری کی جھلک پیش کرتا تھا۔ شہر کراچی کے معززین کی بڑی تعداد اس علم کدہ سے فیض یاب ہوتی تھی۔

کتب خانہ کی قدامت اور اس کی عمارت کی شکستہ حالت کو دیکھ کر حکومت نے 1971ء میں اس کو غیر محفوظ قرار دے دیا اور اس کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع کیا گیا، ساتھ کتب خانہ کی جگہ میں بھی توسیع کی گئی اور قریباً ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی گنجائش کا اہتمام کیا گیا۔ عمارت کی تعمیر کا یہ مرحلہ 1978ء میں مکمل ہوا اور 23 جون 1979ء کو کتابوں کو نئے سرے سے ترتیب دے کر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس کتب خانے کا نام بلدیہ کراچی نے لیاقت ہال لائبریری رکھ دیا۔ کتب خانہ کی عمارت آج کل شہر کراچی کے وسیع سبزہ زار باغ جناح کے قلب میں تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں اسی طرح مصروف ہے، جس طرح سو سال قبل اس کے دروازے پر علم کے طالب آتے تھے۔

کتب خانہ کی امتیازی حیثیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ آج بھی اس میں پندرہ بیس ہزار کے قریب نادر اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان کتابوں کے لیے الگ ایک سیکشن بالائی منزل پر قائم کیا گیا ہے۔ نچلی منزل پر عوامی کتب خانہ ہے، جس میں بیالیس ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ قریباً پچاس ملکی اور غیر ملکی رسائل اور جرائد یہاں وصول ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر انگریزی، اُردو، سندھی، گجراتی زبانوں میں ہیں۔ کتب خانہ میں جدید غیر مطبوعہ مواد کی خریداری کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی اس کتب خانہ میںسمعی و بصری آلات پر مشتمل ایک منفرد شعبہ عوام کو خدمات مہیا کرنا شروع کر دے گا۔ اس طرح مالی وسائل میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ عملہ کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔ 

(کُتب اور کُتب خانوں کی تاریخ، از اشرف علی) 

Post a Comment

0 Comments