حبیب جالب ایک باغی شاعر تھا اور اپنے عہد میں اپنی نوعیت کا شاید واحد شاعر تھا۔ مزاحمتی شاعری کی تاریخ میں جالب کا نام ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا۔ حرفِ صداقت لکھنے کے جرم میں حبیب جالب کو کئی مرتبہ جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے جیل بھیجا گیا، لیکن زنداں کے مصائب بھی جالب کی بے خوف آواز کو نہ دبا سکے۔ جنرل ایوب خاں جب یونین کونسل کے ارکان سے ووٹ لیکر ملک پر بطور صدر مسلط ہونا چاہتے تھے اور ان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول تھا تو اس موقع پر جالب نے جنرل ایوب خاں کو اپنے درج ذیل اشعار کی صورت میں للکارا تھا۔
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہ تھی کوئی چمن سے یارو
سینہء قوم کے ناسور ہیں، یہ پھول نہیں
خوف سا آنے لگا ہے سرووسمن سے یارو
آمریت کے ایوانوں کو چیلنج کرنے کے لئے اس دور کی حزب اختلاف نے قائد اعظم کی عظیم بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خاں کے خلاف بطور صدارتی امیدوار کھڑا کیا تھا۔ حبیب جالب مادر ملت کے انتخابی جلسوں میں اپنی باغیانہ نظمیں پیش کرتے تو عوام کے جوش و جذبہ میں آمرانہ حکومت کے خلاف بے پناہ اضافہ ہو جاتا اور جلسہء عام میں عوام آمریت مردہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ جالب نے قوم کی ماں فاطمہ جناح کی عظمت بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر کہے۔
ماں کے قدموں ہی میں جنت ہے اِدھر آجاؤ
ایک بے لوث محبت ہے، اِدھر آجاؤ
وہ پھر آئی ہے ہمیں ملک دلانے کے لئے
ان کی یہ ہم پہ عنایت ہے، اِدھر آجاؤ
مادرِ ملت کے انتخابی جلسوں میں جالب کی شاعری سے جنرل ایوب خاں کی حکومت کس قدر خوف زدہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ لاہور کے ایک بد معاش کے ذریعے جالب کے خلاف قاتلانہ حملے کا جھوٹا مقدمہ درج کروادیا گیا اور جالب کو سات سال قید با مشقت کی سزا کا فیصلہ سن کر جیل جانا پڑا۔ جالب قید وبند کی صعوبتوں سے گزرتا رہا مگر جالب کا جذبہ بغاوت کبھی ماند نہیں پڑا۔ جنرل ایوب خاں کے دور میں’’دستور‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی جالب کی ایک نظم بہت ہی مشہور ہوئی۔ یہ نظم آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی اکثر اپنے جلسوں میں جالب کے ترنم کے انداز میں یہ نظم پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جنرل ایوب خاں کے دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ کے عہدہ سے الگ کیا گیا تو نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے یوم حمید نظامی پر خطاب کرنے کے لئے ذوالفقارعلی بھٹو کو دعوت دے دی۔ حبیب جالب نے یوم حمید نظامی کی تقریب میں اپنا باغیانہ کلام پیش کیا اور ایک بار پھر گرفتار کر لئے گئے۔ لیکن فرضی مقدمات،جھوٹی شہادتیں، گرفتاریاں اور سزائیں حبیب جالب کو جنوں کی حکایتیں بیان کرنے سے روکنے میں ہمیشہ کی طرح ناکام ہی ثابت ہوئیں۔ جالب زندگی بھر پوری استقامت سے ایک ہی اصول پر کار بند رہے اور وہ اصول یہ تھا۔
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ، سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈرنا، سچ ہی لکھتے جانا
جنرل ایوب خاں کو جب اپنے خلاف عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا تو اس نے ایک اور فوجی جنرل یحییٰ خاں کو اقتدار سونپ کر پاکستان میں ایک نئی فوجی آمریت کی بنیاد رکھ دی۔ حبیب جالب نے نئے فوجی آمر کا استقبال بھی اپنی باغیانہ شاعری سے کچھ یوں کیا۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
پاکستان کے کچھ ناعاقبت اندیش سیاست دان اور جنرل یحییٰ خاں سمیت چند فوجی جرنیل جب اپنی منفی پالیسیوں اور طرز عمل سے پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف کار تھے تو حبیب جالب نے لاہور میں ایک جلسے میں اپنی نظم پڑھنے سے پہلے یہ کہا تھا کہ اس وقت خاموش رہنا میرے نزدیک قومی بے حمیتی ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو جالب کے ضمیر کی آواز کیسے دبی رہ سکتی تھی۔ جالب نے حرفِ صداقت بلند کیا اور انہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ حبیب جالب کی گرفتاریوں کا سلسلہ صرف فوجی آمروں تک محدود نہیں رہا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سول دور میں بھی وہ بغاوت کے جرم میں چودہ ماہ تک جیل میں رہا ۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی جالب نے اپنی حق گوئی کے ریکارڈ کو قائم رکھا اور اس کے صلے میں انہیں قید و بند کی سختیوں سے گزرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوڑوں کی دہشت، جیلوں کا خوف اور شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں تشدد کے واقعات جالب کی زبان پر تالہ نہیں لگاسکے۔ اسی دور میں جالب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حبیب جالب کی فوجی اور سول حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے راستے میں بے پناہ قربانیاں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں تھیں۔ بلکہ ان کی جنگ پاکستان کے مجبور اور مظلوم عوام کے حقوق کی خاطر تھی۔ پاکستان کے غریب، مفلس اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم طبقوں کے لئے جنگ کرنے والے حبیب جالب کی اپنی تمام زندگی بھی غربت اورفاقوں میں بسر ہوئی لیکن دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے جالب نے کبھی اپنا ضمیر نہیں بیچا۔ جالب بکنے والے شاعروں، ادبیوں اور صحافیوں کو بد نصیب قرار دیتے تھے ور اپنی تمام تر غربت، معاشی بدحالی اور فاقوں کے باوجود خود کو خوش نصیب انسان سمجھتے تھے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ ضمیر اور اصول پسندی کی دولت سے وہ زندگی بھر مالا مال رہے۔
ان کے اپنے گھر میں ہمیشہ غربت، افلاس اور فاقوں کی حکمرانی رہی لیکن ہر دور میں انہوں نے انسانی برابری اور معاشی انصاف کی اعلیٰ اقدار کی خاطر معاشرے کے انتہائی طاقتور اور غاصب طبقوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ کوئی فرعون جالب کو مرعوب کرسکا نہ کوئی قارون انہیں خرید سکا۔ محنت کشوں، جھگیوں کے مکینوں اور زمین کو اپنے لہو اور پسینے سے سیراب کرنے والے کسانوں کے دکھ درد بیان کرنے کے لئے جالب نے ہمیشہ اپنی شاعری کو وقف رکھا۔جالب کی جدو جہد جمہوری اقدار اور عوام کی حقیقی حکمرانی کے لئے تھی۔ وہ ملک میں ایک ایسے انقلاب کے متمّنی تھے جس میں کھیت وڈیروں کے پاس نہ ہوں اور ملیں خون چوسنے والے لٹیروں کے پاس نہ رہیں۔ وہ پاکستان میں ایک ایسے نظام کو قائم کرنے کے خواہش مند تھے جو مفلوک الحال اور فاقہ زدہ انسانوں کے استحصال کی موجودہ صورت حال کو یکسر بدل دے۔
آج جالب کی نظمیں پڑھنے والے حکمران تو موجود ہیں۔ جالب کو ہلال امتیاز دینے والی حکومت بھی موجود ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا حکمران بھی ہو جو دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات سے عوام کو نجات دلا دے، جو ظلم و استحصال کی ہر شکل مٹا ڈالے، جس کے دور میں دولت کے بجائے محنت کی عظمت کو تسلیم کرلیا جائے۔ اور جس دور میں مظلوموں اور مجبوروں کے سامنے ظالم کانپ رہے ہوں۔
(فیض اکیڈیمی کے اجلاس میں پڑھاگیا)
محمد آصف بھلی
0 Comments