سوشل میڈیا کی شتر بے مہار فعالیت سے یقیناً بہت ساری قباحتیں پیدا ہوئی ہیں مگر اس سے قطع نظر اس کا تحرّک سوشل میڈیا سے منسلک سوسائٹی کے ہر فرد کو ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رکھتا ہے چنانچہ آج سوشل میڈیا ہی وہ ’’دائی‘‘ ہے جس سے کسی کا پیٹ چھپا نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ روز اپنا فیس بُک آئی ڈی لاگ آن کیا تو طاہرہ جالب کی اہتمام کردہ ایک تقریب کے حوالے سے بے شمار کمنٹس پڑھنے کا موقع ملا۔
اس تقریب کا اہتمام انہوں نے اپنے والد عوامی انقلابی شاعر حبیب جالب مرحوم کی برسی کے موقع پر کیا ہے۔ ایسی تقریب کا اہتمام جالب مرحوم کے صاحبزادے ناصر جالب بھی کیا کرتے ہیں اور رخشندہ جالب بھی اپنے والد کی برسی کی تقریب کے لئے سرگرم رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے بھائی بہنوں میں ناچاقی کچھ اس قسم کی ہو گئی ہے کہ اپنے والد کی برسی کی مشترکہ تقریب کا اہتمام بھی ان کے لئے شجر ممنوعہ بن گیا ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا پر طاہرہ جالب کو مرحوم حبیب جالب کی حقیقی جانشین قرار دیا جا رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کے چراغ سے لگی گھر کو آگ ابھی سرد نہیں پڑی۔
جالب مرحوم کی بیوہ بھی اس آگ میں جھلستی اگلے جہان سدھار گئیں۔ خدا کرے کہ اس سال 13 مارچ کی مرحوم جالب کی برسی پر بہن بھائیوں کو ’’اتفاق میں برکت‘‘ کی تاثیر سمیٹنے کا موقع مل جائے۔ میری مرحوم حبیب جالب کے ساتھ سالہا سال کی رفاقت اور نیاز مندی رہی اور اس ناطے سے مجھے جالب کے بچے بچیاں بھی عزیز ہیں جن میں ناچاقی کی خبریں مجھ پر بھی گراں گزرتی ہیں۔ ان کی بہتری کے لئے دعا گو ہوں۔
کیا دبنگ شخصیت تھے حبیب جالب، میری ان سے نیاز مندی کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک بحالیٔ جمہوریت کے دوران شروع ہُوا اور حدِ ادب میں رہتے ہوئے بے تکلفی کے مراحل بھی طے کرتا گیا۔ اس تحریک میں ایم آر ڈی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور پریس کلب کے پلیٹ فارم پر اپنے ماضی الضمیر کے اظہار اور کتھارسس کا موقع مل جاتا تھا ورنہ ضیاء آمریت کا جبر کسی کو پَر نہیں مارنے دیتا تھا۔
جالب مرحوم صرف جمہوری اقدار کی پاسداری کے لئے ایم آر ڈی کی تحریک کا ساتھ نبھاتے رہے ورنہ بھٹو مرحوم کی سول آمریت سے بھی وہ ہرگز خوش نہیں تھے۔ بھٹو دور میں ہمارے بابا جی وقار انبالوی کی بھٹو کے لئے ’’مدح سرائی‘‘ پر مبنی ایک نظم ’’اے قائد عوام …‘‘ زبانِ زد عام ہو گئی۔ اس نظم کے بے باکانہ الفاظ ضبط تحریر کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے اس لئے اس نظم کی باضابطہ اشاعت کی تو کبھی نوبت نہیں آئی تاہم یہ نظم سینہ بہ سینہ گردش کرتی ہوئی بھٹو صاحب تک بھی پہنچ گئی جسے سُنتے ہی انہوں نے حبیب جالب کے لئے اپنے دل میں پہلے سے موجود انتقامی جذبے کی بنیاد پر ان کی نظر بندی کا حکم دے دیا۔
جالب صاحب دھر لئے گئے تو انہوں نے اس مہربانی کی وجہ دریافت کی، سنتری بادشاہ کا جواب ملا، آپ نے بھٹو صاحب کی شان میں فلاں نظم لکھی ہے۔ جالب صاحب نے بالاصرار وہ ساری نظم سُنی اور پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ صاحب کو بتا دو! یہ کسی استاد شاعر کی لکھی ہوئی نظم ہے، میں ایسی گستاخی نہیں کر سکتا۔ بھٹو مرحوم کو اس جواب پر تسلی ہوئی ہو گی یا نہیں، بہر حال جالب صاحب کی نظر بندی ضرور ختم ہو گئی۔ ایوب خان کے لاگو کئے گئے 62ء کے آئین پر جالب مرحوم نے جو پھبتی کسی تھی وہ آج میاں شہباز مترنم لہجے میں سُنا سُنا کر زبانِ زدعام کر چکے ہیں ؎
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا
اور پھر ضیاء آمریت کو انہوں نے کیا کھرا جواب دیا
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اسے بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
ضیاء آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کے جلسوں، جلوسوںاور احتجاجوں میں حبیب جالب کا طوطی بولتا رہا۔ وہ رومانوی شاعری میں بھی اپنا خاص مقام رکھتے تھے، مگر جمہوریتوں پر شب خون مارنے والی جرنیلی آمریتوں نے انہیں انقلابی شاعر بنا دیا ورنہ تو ان کے دلی جذبات اس انداز میں شاعری کے قالب میں ڈھلا کرتے تھے کہ
یہ تو بجا کہ تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر تیرا چھوڑ جائیں ہم
اور پھر ؎
لوگ کہتے ہیں تیرا نام نہ لوں
میں تجھے ماہتاب کہہ لوں گا
ایک بار ہماری مجلس دوستاں میں، جس کا اہتمام اکثر اوقات ریگل چوک پر صوبہ خاں ٹیلرز کے سامنے تھڑے پر کرسیاں لگا کر اے این پی کے فاروق قریشی کیا کرتے تھے، حبیب جالب نے رومانوی شاعری سنا کر اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ علامہ احسان الہٰی ظہیر، رئوف طاہر، سہیل اختر ملک اور میرے علاوہ چند دوسرے احباب بھی جالب کی اس شاعری پر عش عش کر اٹھے۔
میری جالب سے تقریباً روزانہ کی ملاقات لاہور ہائیکورٹ بار کے صحن میں برگد کے درخت کے نیچے رشید قریشی ایڈووکیٹ کی جانب سے لگائی جانیوالی کتھارسس کی نشست میں ہوا کرتی تھی۔ جس کے آس پاس سردار شوکت علی، ملک محمد قاسم، ملک حامد سرفراز، سید منظور علی گیلانی، میاں بشیر ظفر، چودھری لیاقت وڑائچ اور ملک معراج خالد کے ڈیرے بھی جمے رہتے تھے۔ حبیب جالب اکثر مجھ سے پنجابی زبان میں اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے مخاطب ہوتے ’’اوئے آسی، تیری مر جائے ماسی، اج دیاں کیہہ خبراں نے‘‘ انہیں پتہ تھا کہ میری ماسی میری ساس بھی ہے اس لئے وہ بطور خاص یہ فقرہ ادا کرتے۔
میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ آپ میری ماسی کو کیوں مارنا چاہتے ہیں تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ یار میری دعائوں میں بھلا کون سی تاثیر ہے۔ آپ سے بس مذاق کرتا ہوں۔ وہ واقعی یہ فقرہ دعا یا بددعا کیلئے استعمال نہیں کرتے تھے جس کا یہ واضح ثبوت ہے کہ میری ماسی (خالہ) جالب مرحوم کے انتقال کے بھی دس سال بعد تک زندہ رہیں۔
جالب مرحوم روزانہ 30 کلومیٹر کا سفر بذریعہ ویگن طے کر کے ریگل چوک اور وہاں سے پیدل ہائیکورٹ آتے تھے اور گپ شپ یا ایم آر ڈی کے کسی نہ کسی احتجاج میں حصہ لینے کے بعد اسی طرح ویگن کے ذریعے واپس گھر چلے جاتے۔ انہوں نے جنرل ہسپتال سے بھی پانچ کلو میٹر آگے ایک ویرانے میں آباد سروبا گارڈن میں گھر خریدا تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یار اس آبادی کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، گیس اور سیوریج کا نظام تک ناپید ہے، بیوی مجھے کوستی ہے کہ کہاں لا پھینکا ہے۔
میں نے تجویز دی کہ آپ صحافیوں کا دورہ کرا کے اپنے مسائل انہیں بتائیں، پریس میں ہائی لائیٹ ہو گا تو متعلقہ ادارے بھی انگڑائی لے لیں گے۔ جالب صاحب نے اس دورے کا اہتمام بھی میرے گلے میں ڈال دیا، سو میں صحافیوں کا ایک وفد لے کر سروبا گارڈن ان کے گھر آ گیا۔ علاقے کی سوسائٹی کے لوگوں کا بھی اکٹھ ہو گیا اور پریس کانفرنس بن گئی۔ جالب صاحب کے گھر کا بالکل عام رہن سہن والا ماحول تھا۔ گھر کے سامنے چٹیل میدان، جالب صاحب نے ازراہ تفنن اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے کہا کرتی تھی مجھے بڑے صحن والا گھر چاہیے اب دیکھ لو اس گھر کے باہر سارا صحن ہی صحن ہے۔
اگلے دن اخبارات میں ’’روداد جالب‘‘ ہائی لائیٹ ہو گئی اور اس کی برکت سے سروبا گارڈن میں سیوریج لائن بھی بچھ گئی۔ مگر جالب صاحب کو آخری ٹھکانہ سبزہ زار سکیم بی بلاک کے قبرستان میں نصیب ہوا۔ انہیں ایم آر ڈی کی مخالفت کے ناطے پیپلز پارٹی کا حامی تصور کیا جاتا تھا مگر ایک بار وہ فلیٹیز ہوٹل میں جہانگیر بدر کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں پیپلز پارٹی کے جیالا کلچر کے ہتھے چڑھ گئے۔
جالب صاحب نے اس تقریب میں اپنی پنجابی نظم ’’سانوں تیرا بڑا خیال کُڑے۔ نہ جا امریکہ نال کُڑے‘‘ سنانا شروع کی تو سٹیج پر بیٹھے شیخ رفیق احمد، جہانگیر بدر اور دوسرے پارٹی لیڈر بھی جبینوں پر بل ڈالتے جالب صاحب کی ہوٹنگ کرتے نظر آئے جبکہ تقریب میں موجود جیالے تو ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے چنانچہ جالب صاحب کو بمشکل تمام ہال سے باہر نکالنا پڑا۔ ان سے وابستہ یادیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک کالم میں سموئی نہیں جا سکتیں سو جالب کی برسی پر آج اتنا ہی کافی ہے۔ یار زندہ، صحبت باقی۔
سعید آسی
0 Comments