ترکی دولت عثمانیہ کے زیر نگین عرصہ دراز تک دنیا کی مسلم ریاستوں کا مرکز رہا ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کے پایۂ تخت کی حیثیت سے برصغیر کے سربراہان خلافت ترکی سے سند حکمرانی حاصل کرتے رہے۔ ترکی پہلی جنگ عظیم اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا رہا۔ وہ خلافت جس نے تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک سیاسی اور فکری پلیٹ فارم فراہم کیا ہوا تھا، پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب اس پر سامراجی قوتوں نے قبضہ کیا تو ترکی اتاترک کی قیادت میں اپنی بقا کی جنگ لڑا اور بالآخر وہ ترکی سے یورپی تسلط کو ختم کرانے میں کامیاب ہوا مگر اتاترک نے عنان حکومت سنبھالتے ہی خلافت کو ختم کر دیا۔ اس طرح ترکی جو صدیوں تک مسلمانان عالم کی نگاہوں کا مرکز رہا تھا، بیسویں صدی کے نصف اوّل میں خلافت کے منصب سے محروم ہو گیا۔
تا ہم ترکی نے عثمانیہ دور میں جو علم و ادب کی خدمات انجام دیں، تاریخ ان کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ دولت عثمانیہ کے سلیمان اعظم کے ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ سلطان محمود اوّل نے کتابوں کی فراہمی اور کتب خانوں کے قیام کی جانب بہت توجہ دی۔ چنانچہ پایہ تخت قسطنطنیہ علم و ادب کا مرکز بن گیا تھا۔ مختلف ممالک کے دانشور یہاں کے کتب خانوں، عجائب گھروں اور درس گاہوں میں مطالعہ کیلئے چلے آتے تھے۔
سلطان سلیم ثالث (1779-1807ء) کے عہد میں ایک فوجی کتب خانہ قائم کیا گیاجس میں فنون حرب و ضرب، علم ریاضی اور سائنس کی بے شمار کتابیں محفوظ کر لی گئی تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے بہت سے کتب خانوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً کتب خانہ جامع ابا صوفیہ، کتب خانہ جامع بایزید، کتب خانہ حمیدیہ، کتب خانہ جامع محمد فاتح وغیرہ۔
راغب پاشا نے اپنی جیب خاص سے ایک کتب خانہ قائم کیا تھا، جو کتب خانہ راغب پاشا کے نام سے مشہور ہے۔ ترکی آج بھی اپنے اسلامی تہذیبی ورثے کے محافظ کی حیثیت سے دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استنبول میں توپ کاپی عجائب گھر اسلامی عہد کے ایسے ہزاروں شاہ پاروں سے آراستہ تھا جو دنیا کے قدیم کتب خانوں کو اپنی علمی اور فنی خوبیوں سے جگمگاتے رہے تھے۔
شرف علی
0 Comments