Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

وادی ٔسندھ کی قدیم کتابیں

تقریباً ایک سو چالیس سال قبل(1875ء) میں مسٹرالیگزینڈر کننگھم  نے ہڑپہ سے برآمد ہونے والی ایک ایسی مہر کے بار ے میں انکشاف کیا جس کو میجر جنرل کلارک نے دریافت کیا تھا۔ یہ ایک سیاہ رنگ کے قیمتی پتھر کی سِل تھی جس کے دائیں جانب دو ستارے بھی بنائے گئے تھے۔ اس سِل پر ایک بغیر کوہان کے بیل کی شکل کھینچی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس کی عبارت پڑھی نہ جا سکی تاہم ماہرین کا یہ خیال تھا کہ یہ خط مقامی ہونے کے بجائے بیرونی علامات کی عکاسی کرتا ہے۔ 

یہ پہلی دریافت تھی جس نے وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب بڑا متوجہ کیا۔ کننگھم کا خیال بعد میں بدلا اور اس نے تحقیقی مقالے میں یہ رائے قائم کی کہ ا س سل پر جو تحریر کندہ ہے، اسے قدیم انڈین اشوکی خط کہا جا سکتا ہے جو بائیں سے دائیں جانب لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ 1886ء میں کننگھم نے اسی طرح کی ایک اور سل کا انکشاف کیا جو ہڑپہ کے آثار کی کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی جس کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ سل مقامی ہونے کے بجائے کسی بدھ بھکشو کی یہاں آمد کے وقت ساتھ لائی گئی معلوم ہوتی ہے۔
اسی طرح مزید ایک سل1886ء میں ہڑپہ ہی کے مقام سے ملی تھی۔ ان تینوں سلوں کو سامنے رکھ کر مسٹر لانگ ورتھ ڈیم  اور مسٹر جی۔ آر۔ ہنٹر   نے اپنے ڈاکٹری کے تحقیقی مقالے کے لیے تقریباً 750 ایسی سلوں (مہروں) کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان پر پائی جانے والی تحریر خالصتاً فونیٹک  ہے۔ 

اگرچہ اس کی ابتدا پکٹو گرافک یا آئی ڈیوگرافک ہے۔ اس کے برخلاف ایک ہندی ماہر مسٹر پران ناتھ کا یہ خیال تھا کہ یہ خط بجائے کسی اور خط کے براہمنی خط کے زیادہ قریب ہے۔ جبکہ ایک اور ہندی سکالر مسٹر اے۔ پی۔ کرمکار(A.P.   نے اس تحریر کو سنسکرت میں پڑھنے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ یہ تحریریں ویدک اور اس کے بعد کے دور کی کہی جا سکتی ہیں۔ 

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ تحریر آرین اور ڈراوڑی قوموں کے باہمی ملاپ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس دوران ہمارے اردو اور سندھی کے ماہرین لسانیات ے بھی ان تحریروں کو پڑھنے کی کوششیں کیں۔ ان میں بعض کی رائے میں یہ خط قدیم عربی رسم الخط کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے جبکہ ڈاکٹر احمد حسن دانی ماہر آثار قدیمہ و تاریخ و جغرافیہ نے ان تحریروں کو جیومیٹری کی مختلف اشکال کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔

 تاہم معروف ماہر آثار وامصار سرمورٹیمر وہیلر نے تمام تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تحریری مواد نا کافی اور مسلسل نہ ہونے کی وجہ سے موہن جوڈ ارو اور ہڑپہ کی تحریروں کو صحیح طور پر پڑھنا بہت دشوار ہے۔ تا ہم دنیا کے مختلف اداروں میں تحقیقاتی کام جاری ہے اور امید ہے کہ جلد انسانی تہذیب کی اولین تحریروں کو پڑھا جا سکے گا۔

اشرف علی
  

Post a Comment

0 Comments