Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

فاطمہ ثریا بجیا، ادبی دنیا کا ایک اور چراغ بجھ گیا

اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر لینے والی خاتون مصنفہ اور بے مثل ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا بدھ کے روز کراچی میں رحلت کر گئیں۔ ان کی شخصیت بیان کرنے میں ایک میٹھے لہجے والی گرم جوش اور ان تھک محنت کرنے والی خاتون کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جن کے دل میں بچوں کو سوتے وقت سنائی جانیوالی کہانیوں کے سرچشمے مدھر سروں میں بہتے رہتے تھے۔

مرحومہ نے بڑی بہن ہونے کے ناطے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی ماں بن کر پرورش کی جن میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ان سے چھوٹی زہرہ نگاہ جنہوں نے اوائل عمر میں ہی اپنی شاعری کا لوہا منوا لیا تھا۔ تاہم شادی کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئیں۔

ایک چھوٹی بہن آپا زبیدہ جو چھوٹی اسکرین پر خواتین کو گھریلو ٹوٹکے بتاتی ہیں اور چھوٹے بھائی انور مقصود جنہوں نے معین اختر مرحوم کے ساتھ جوڑی بنا کر ناقابل فراموش کردار نگاریاں کیں۔ انور مقصود ایک اعلیٰ درجہ کے مصور  ہی  نہیں بلکہ پاکستان میں سب سے پہلا میوزک بینڈ بھی انھیں نے قائم کیا تھا۔ ان سب چھوٹے بھائی بہنوں میں فاطمہ بجیا کی ہی تربیت اور تعلیم  رنگ دکھا رہی ہے۔
فاطمہ بجیا کا گھرانا علم و فضل میں بہت ممتاز تھا اور ان کے دادا کو ان کی قابلیت دیکھ کر نظام حیدر آباد میر عثمان علی نے بدایوں سے حیدر آباد آنے کی دعوت دی تھی جہاں ان کو اعلیٰ حکومتی عہدہ پیش کیا گیا لیکن جب بھارتی حکومت نے نظام  کا تختہ الٹ دیا تو ان کی فیملی کے پاس پاکستان ہجرت کر جانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا۔

ثریا بجیا کی فیملی نے پاکستان آ کر کراچی میں پڑاؤ ڈالا۔ اپنے خاندان کی ہجرت کی داستان بیان کرتے وہ یاد کرتی ہیں کہ ایک بھارتی فوجی افسر نے انھیں بمبئی جانے والی ٹرین میں سوار کرایا جہاں سے وہ سمندری سفر کے ذریعے کراچی پہنچے۔ ان کا خاندان کافی بڑا تھا جس میں ان کی دادی کے علاوہ پردادی بھی شامل تھیں اور ان کے والدین کے علاوہ 9 چھوٹے بھائی بہن۔ ان کے گھریلو سامان میں 80,000 سے زائد کتب بھی شامل تھیں جس کا ذکر کرنا مرحومہ کبھی نہ بھولتی تھیں۔

حیدر آباد میں پر آسائش زندگی بسر کرنیوالی اس فیملی کو کراچی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن پوری فیملی نے تمام مصائب و مشکلات کا نہایت مردانہ وار مقابلہ کیا اور ان پر قابو پا لیا‘ بجیا کی شادی ٹوٹ گئی اور انھیں نومولود بچوں کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ان کی والدہ  ہجرت کے پہلے عشرے میں ہی چل بسیں جس کے بعد سارے گھرانے کی ذمے داری بجیا کے کندھوں پر آ گئی۔ انھوں نے ابتداء میں گڑیاں بنانا شروع کر دیں پھر کپڑوں کی ڈیزائننگ اور کشیدہ کاری شروع کی تا کہ باورچی خانہ کا خرچ چلتا رہے۔

چند سال قبل ایک انٹرویو میں بجیا نے بتایا کہ وہ پاکستان میں کپڑوں کی ڈیزائننگ کرنے والی پہلی شخصیت تھیں۔ آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (اپوا ) نے گل رعنا کلب کراچی میں ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔ احمد مقصود ہمدانی ان کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔ بجیا کی کمزوریوں میں ان کی تمباکو والا پان کھانے کی عادت تھی جو وہ برس ہا برس تک کھاتی رہیں جس سے بالاخر انھیں تکلیف بھی ہوئی جسے ڈاکٹروں نے منہ کے سرطان سے موسوم کیا۔

تاہم خوش قسمتی سے وہ ایک لمبے اور تکلیف دہ آپریشن کے بعد اس جان لیوا مرض کے چنگل سے نکل آئیں اور صحت یاب ہوتے ہی دوبارہ ڈرامہ نگاری شروع کر دی۔ بجیا نے بچوں اور خواتین اور عام ناظرین کے لیے 300 سے زیادہ ڈرامے لکھے۔ شروع میں انھوں نے ریڈیو کے لیے لکھنا شروع کیا لیکن جب ٹی وی آ گیا تو وہ سمعی کے ساتھ بصری آرٹ کی جانب متوجہ ہو گئیں۔ انھوں نے آڈیو  ویژول اسٹوڈیو کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ان کی حد سے زیادہ مقبول ٹی وی سیریز میں شمع‘ افشاں‘ انا اور آگاہی شامل ہیں۔ انھیں جاپانی لٹریچر بھی بہت پسند تھا اور انھوں نے جاپان کی ہائکو کی طرز پر شاعری بھی کی ۔

انھوں نے جاپانی افسانوں کے تراجم بھی کیے اور اردو میں ان کے ڈراموں کو اسٹیج کیا۔فاطمہ ثریا بجیا کو میوزیکل ڈرامے لکھنا بہت پسند تھے اور ان کے ایک ڈرامے ’’پھول بنی سرسوں‘‘ بہت پسند کیا گیا اس میں انھوں نے اردو کے کلاسیکل شاعر امیر خسرو کی شاعری استعمال کی جو کہ سات سو برس قدیم ہے مگر آج بھی تازہ بہ تازہ نو بہ نو ہے۔

مرحومہ کا بیگم آمنہ مجید ملک کے قائم کردہ طالبات کے اسکول سے بھی ایک خاص تعلق تھا جس کے لیے وہ بچوں کے ڈرامے ترتیب دیتی تھیں۔بجیا نے اپنے لیے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی سلطنت چنی اور اس پر جم کے حکومت بھی کی۔ ذرا سوچئے پچھلے آٹھ ماہ کے دوران کیسے کیسے نادر لوگ مرگ انبوہ میں گم ہو گئے۔ عبداللہ حسین، جمیل الدین عالی، کمال احمد رضوی، اسلم اظہر، نسرین انجم بھٹی، ندا فاضلی، انتظار حسین اور پرسوں (دس فروری 2016) فاطمہ ثریا بجیا بھی چلی گئیں۔

بجیا نے اپنی آٹھ سے زیادہ عشروں پر محیط  زندگی میں کیا کیا نہیں دیکھا۔ حیدر آباد دکن کا تہذیبی و سیاسی زوال، ایک محفوظ حویلی کی بانہوں سے نکل کر کراچی کی ہجرتی بے سروسامانی، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال، ہجرت کے سانپ اور سیڑھی والے کھیل سے ہار نہ ماننے والی بجیا نے سفید پوشی سے اپنے اور اپنے بہنوں بھائیوں کے لیے رفتہ رفتہ آسودگی کا نور کاڑھ ہی لیا۔

کوئی بیورو کریٹ بنا (احمد مقصود حمیدی)، کوئی فیشن ڈیزائنر (مسز کاظمی)، کوئی صداکار و اداکار و صحافی و ڈرامہ نگار (انور مقصود)، تو کوئی بی بی سی اردو کا ہو رہا (سارہ نقوی)، تو کسی نے شاعری میں جھنڈے گاڑ دیے (زہرہ نگاہ)، تو کسی نے کوکنگ کے کلاسیکی فن کو جدید تہذیبی تڑکا لگا کے اسے چھوٹی اسکرین کے ذریعے گھر گھر عام کر دیا (زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپا)۔ بجیا نے خود اپنے لیے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی سلطنت چنی اور اس پر جم کے حکومت بھی کی۔ آٹھ سے دس ناول لکھے جن کے مسودے آج بھی شایع ہونے کے لیے بے کل ہیں۔ بس ایک ناول چھپ سکا جو چودہ برس کی لکھارن کے والد نے حیدر آباد دکن میں شایع کروایا۔بجیا کا تعلق قدامت پسند کلاسیکل تہذیب سے تھا۔ مگر وہ کٹھ ملانی نہیں تھیں۔

جنرل ضیا کے دور میں جب ٹی وی ڈراموں پر دوپٹہ پالیسی لاگو ہوئی اور موسیقی کے اندر سے بھی موسیقی نکال لی گئی تو بجیا نے روٹھ کر گھر بیٹھ جانے یا پھر ان پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حصہ بننے کے بجائے اس جبر کو بھی اپنے حق میں نہایت ذہانت سے استعمال کر لیا۔ یعنی قرطبہ اور بغداد کے تہذیبی و درباری ماحول کے پردے میں وہ سب کچھ دکھا دیا جو انھیں ضیائی ماحول میں دکھانے سے روکا جا رہا تھا۔

سب نے اوپر تلے واہ واہ بھی کی۔ کیونکہ قرطبہ اور بغداد میں جو تہذیبی چمک دمک اور پرفارمنگ آرٹ و فنون لطیفہ کی پذیرائی تھی وہ بھی بہرحال برصغیری دانش میں گم گشتہ مسلمان تہذیب کا ہی حصہ تھی۔ لہٰذا کون خلیفہ کے روبرو زرق برق کنیزوں کے لباسوں اور غنائیت کی تھرکن پر انگلی اٹھا سکتا تھا۔

بجیا کو کسی لڑکے اور لڑکی کے بغرض ملازمت سفارش سے کبھی عار نہیں رہا۔ اکثر وہ اس کام میں بھاگ دوڑ کے دوران ہلکان بھی ہو جاتی تھیں۔ آخری عمر میں سرطانی بیماری بھی انھیں ایسے فی سبیل اللہ کاموں سے نہ روک پائی۔ بقول انور مقصود بجیا کی فطرت میں ’’نہیں‘‘ تو تھا ہی نہیں۔ حکومت پاکستان نے بجیا کو پرائڈ آف پرفارمنس اور پھر ہلال امتیاز سے نواز کر اور حکومت جاپان نے اعلیٰ سول ایوارڈ عطا کر کے اور حکومت سندھ نے کچھ عرصے کے لیے مشیر تعلیم و ثقافت مقرر کر کے اپنی توقیر میں اضافہ کیا۔

راستو کیا ہوئے وہ لوگ  جو آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے

ابنِ آدم

Post a Comment

0 Comments