اگر بلوچستان میں کوئی قتلِ عام ، خود کش حملہ ، فوجی آپریشن ، تخریبی کارروائی یا کسی ممتاز لاپتہ کی لاش ملے یا پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے تعلق سے کوئی بیان یا ہڑتال ہو تب تو قومی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں بلوچستان کی جگہ بنتی ہے ۔اس کے علاوہ وہاں کچھ بھی ہو رہا ہو کسی غیر بلوچستانی کو کوئی مطلب نہیں۔
یہی کچھ اس ہفتے گوادر میں آر سی ڈی سی کے زیرِ اہتمام تیسرے سالانہ ادبی و کتب میلے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس میں کوئٹہ اور کراچی تک سے مہمان آئے۔ مکران بھر سے مطالعے اور ادب کے شائقین اپنے خرچے پر فاصلے طے کر کے پہنچے۔ مگر ایک مقامی بلوچی ٹی وی چینل کے سوا کسی کو یہ جاننے کی طلب نہ ہوئی کہ بلوچستان میں میڈیا کی من پسند خبروں کے علاوہ بھی زندگی کے کئی رنگ ہیں۔
گوادر میں ہونے والا یہ میلہ قومی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل نہ کر سکا
اس میلے کے منتظیمن نے کراچی کے بڑے بڑے پبلشرز سے درخواست کی کہ میلے میں اپنے اپنے اسٹالز لگائیں۔ مگر جو بھی بلوچستان بالخصوص مکران کا نام سنتا کانوں کو ہاتھ لگا لیتا۔ حتی کہ کراچی اور اسلام آباد لٹریری فیسٹیول کے بانی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بھی عین وقت پر ہاتھ کھینچ لیا۔ مگر کچھ چھوٹے پبلشرز ضرور صحیح سلامت آئے اور خوش خوش واپس لوٹے۔
خود منتظمین نے کراچی کے معروف پبلشرز کی کتابیں خریدیں اور گوادر کے میلے میں فروخت کے لئے رکھیں۔ سب سے زیادہ مانگ تاریخ ، فلسفے اور ادب کی تھی۔
اس ادبی و کتب میلے میں گوادریوں کے علاوہ دیگر نواحی شہروں اور قصبات سے لگ بھگ سات ہزار لوگوں نے شرکت کی ( اسی فیصد نوجوان تھے )۔ چار دن میں ساڑھے چھ لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ مشاعروں اور تھیٹر پرفارمنس کے علاوہ صوبے کے علمی ، سماجی ، اقتصادی اور سیاسی مستقبل اور تاریخی ورثے پر کھل کے خالی خولی نعرے بازی کے بجائے محققانہ گفتگو ہوئی ۔
گوادر کی بندرگاہ اپنی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہے
حالانکہ اس وقت گوادر ادھڑی ہوئی گلیوں اور اجڑے محلوں کا ایک ایسا ’سلم‘ ہے جس کی بلدیہ کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں۔ حالانکہ اسی فیصد آبادی ماہی گیروں پر مشتمل ہے، حالانکہ تین طرف سے سمندر سے گھرا ہونے کے باوجود یہاں پینے کا پانی گیارہ ہزار روپے فی ٹینکر کی صورت میں دور دراز سے پہنچتا ہے ، حالانکہ یہاں دس سے پندرہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہے ، حالانکہ یہاں کے ڈگری کالج میں بائیس اساتذہ کی آسامیوں پر بارہ اساتذہ کا تقرر ہے ( ان میں سے بھی چار بلوچی زبان کے ٹیچر ہیں ) اور کلاسیں دوپہر سے پہلے ہی غتربود ہوجاتی ہیں۔
مگر میلے میں انا اور غیرت کے مارے گوادریوں نے اپنی محرومیوں کا رونا نہیں رویا بلکہ عقل ، علم ، فلسفے ، ادب ، مصوری ، معاشی مستقبل کے بارے میں جاننے پر توجہ مرکوز رکھی۔ایک ایک کو دھیان سے سنا اور تلخی ظاہر کئے بغیر سوال و جواب میں حصہ لیا۔
منتظمین کہتے ہیں کہ گوادر ادبی کتب میلہ اگلے برس بھی ہوگا اور اس سے اگلے برس بھی۔ حالات اپنی جگہ میلہ اپنی جگہ۔ جنہیں آنا ہے وہ ضرور آتے رہیں گے۔جو زندہ بلوچستان کے بجائے اپنی ذاتی تصوراتی بلوچستان پر یقین رکھتے ہیں وہ اسی پر یقین رکھتے رہیں۔
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہنِ چاک میں ہے مدنی
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 Comments