Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

صحافت کا ناز ہم سے بچھڑ گیا

حسبِ معمول روز مرہ کے امور سرانجام دینے کے بعد ٹی وی چینل پر نو بجے کا خبرنامہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی، تیمور خان کا فون تھا اس نے خبر سنائی بخاری صاحب، ڈاکٹر احسن اختر ناز صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ فوری طور پر شیخ زید اسپتال پہنچو، مجھے ایک جھٹکا سا لگا، ایک لمحے کے لئے ہاتھ پاوں ساکت ہوگئے اور چند صحافی دوستوں کو مطلع کرتے ہوئے اپنے ایک اور محبوب استاد عبدالمجید ساجد کے ہمراہ شیخ زید اسپتال کی جانب چل پڑا۔ راستے میں ناز صاحب کے ساتھ گذارے لمحے ایک فلم کی مانند گھومنے لگے۔

سر! امجد حسین بخاری نام ہے اور ماہنامہ ہم قدم کا مدیر ہوں، میں نے اپنا تعارف کرایا، ناز صاحب نے جواباََ مسکراتے ہوئے کہا کہ اللہ معاف کرے ہم قدم پر بھی یہ دور آنا تھا جو تم اس کے مدیر بن گئے۔ ناز صاحب کے ساتھ یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعارف مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ادارہ علومِ ابلاغیات میں داخلے کے وقت میرا فارم بوجوہ تاخیر سے جمع ہوا۔ پاکستان کی ایک نامور جامعہ کے بہترین شعبہ میں داخلہ لینا، یقیناً خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ میں ناز صاحب کے پاس گیا ان سے اپنا مسئلہ بیان گیا ایک لمحے میں متعلقہ کلرک کو مسئلہ حل کرنے کا کہا اور میں ادارہ علومِ ابلاغیات کا باقاعدہ طالب علم بن گیا۔

جامعہ پنجاب سے ایم ایس ای جرنلزم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے چین جانے کا پلان ہوا۔ مشاورت کے لئے ناز صاحب کے پاس پہنچا، پیار اور محبت کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ مستقبل کے پلان پر سیر حاصل گفتگو کی، پی ایچ ڈی کا منصوبہ انہیں بتایا خوشی کا اظہار کیا اور ریسرچ پلان مجھے بنا کردیا۔ اس ملاقات کے چند روز بعد ان کے بیٹے ابو ذر کا فون آیا اس نے بتایا کہ ابا جان کی شوگر بڑھ گئی ہے اور وہ شیخ زید اسپتال کے النیہان وارڈ میں داخل ہیں اور ڈاکٹرز نے ان کی ٹانگ کاٹ دی ہے۔ عبد المجید ساجد اور باقی صحافی دوستوں کے ہمراہ عیادت کے لئے پہنچا اور ان سے ملاقات کے وقت اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پایا۔ انہوں نے سینے سے لگایا اور کہا کہ ’’بیٹا! آنسو بہت قیمتی ہوتے ہیں انہیں سنبھال کر رکھو‘‘۔

ناز صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات پر اگر تحریر کروں تو ایک طویل وقت درکار ہے، اور الفاظ کا ذخیرہ ختم ہونے کا خدشہ ہے، انہیں ڈاکٹرز نے مرغن کھانوں سے منع کیا ہوا تھا۔ جب کبھی گھر والوں سے چھپ کر انہیں کھانا کھانا ہوتا تو رابطہ کرتے، کسی اچھے ہوٹل میں مرغن کھانے جی بھر کے ان کے ہمراہ کھاتا رہا۔ ڈاکٹر افتخار کھوکھر دعوہ اکیڈمی میں شعبہ بچوں کے ادب کے انچارج روایت کرتے ہیں کہ بطور مدیر ھم قدم ایک دن ڈاک کی پڑتال کے دوران انہیں ایک خط سے واسطہ پڑا جس میں ’ھم قدم‘ کی تحسین کی گئی تھی۔

 خط تو اچھا تھا ہی، خوش خط بھی تھا یعنی ہینڈ رائٹنگ بہت جاذبِ نظر تھی۔ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ’اتحاد کیمیکلز‘ کالا شاہ کاکو میں لیبارٹری اسسٹنٹ ہے اور ایک خوددار، غیرت مند انسان کی طرح پرائیویٹ طالبعلم کی حیثیت سے بی اے کے امتحان کی تیاری کررہا ہے۔ مدیر ہم قدم نے محبت، تعریف اور حوصلہ افزاء کا وہ تیر بہدف نسخہ آزمایا جو نہ جانے کتنے نوجوانوں کی کایا پلٹنے کا باعث ہوتا آیا ہے۔ وہ نوجوان پہلے اس منفرد اجتماعیت کے تاریخی مجلّیکی ادارتی ٹیم میں شامل ہوا اور پھر علم، قلم، تحریر اور تدریس سے اسطرح جُڑا کہ پاکستان کی قدیم ترین جامعہ کے شعبہ ابلاغیات کی سب سے بڑی مسند پہ جا براجمان ہوا۔

اس راہ میں مشقِ سخن اور چکی کی مشقت کے متعدد کٹھن مقام آئے اور مقام فیض کو راہ میں جچا ہی نہیں کے مصداق نہ جانے کتنے نشیب و فراز عبور کرنے کے بعد آج اس کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا۔ احسن اختر ناز اِسی کا نام تھا جسے اُس کے ہزاروں چاہنے والے منوں مٹی تلے سُلا آئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تو ناز صاحب کو بھی پابند سلاسل کردیا گیا۔ زمانہ طالب علمی کی تربیت اور تعلیمی اداروں میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ہی اثر تھا کہ ڈاکٹر احسن اختر ناز کسی بھی آمر کے سامنے نہیں جھکے اور نہ ہی کوئی انہیں خرید سکا۔

عملی زندگی میں ابتدائی طور پر جامعہ کے پبلک ریلیشنز آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ بعد ازاں 1993ء میں بطور لیکچرار شعبہ ابلاغیات جامعہ پنجاب سے وابستہ ہوگئے۔ 2009 میں انہوں نے شعبے کے سربراہ کی نشست سنبھالی، ان کی قیادت میں شعبہِ ابلاغیات نے ترقی کی کئی منازل طے کیں۔ ڈاکٹر ناز نے 2007 میں جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں صحافتی اخلاقیات اور قوانین پر عبور حاصل تھا، انہوں نے ان موضوعات سمیت کئی صحافتی امور پر تحقیقی مقالے لکھے اور وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ جنہیں درسی کتب کا درجہ دیا گیا۔ انہوں نے بہت سی بین الاقوامی و قومی کانفرنسوں میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی بھی کی۔ ڈاکٹر ناز بحیثیت کالم نگار روزنامہ پاکستان سے بھی وابستہ تھے۔

جامعہ میں تدریس کے دوران وہ ہمیشہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ کے نشانے پر رہے۔ ہر دور میں انکوائریاں اور دھمکیاں ان کا پیچھا کرتی رہیں، مگر ناز صاحب کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے، ایک واقعہ انہوں نے خود بیان کیا کہ’’ایک بار یونیورسٹی انتظامیہ نے ادارہ علوم ابلاغیات کے اس وقت کے منتظمین کے ساتھ مل کر مجھے معطل کردیا۔ میں نے اس وقت کو قیمتی جانا اور ریسرچ آرٹیکل لکھنا شروع کردئیے۔ جب بین الاقوامی جرنلز میں تواتر کے ساتھ میرے آرٹیکل شائع ہونا شروع ہوئے تو انتظامیہ کو خطرہ لاحق ہوا، اور مجھے دوبارہ بحال کردیا۔ 

ناز صاحب کو ہمیشہ اپنوں اور غیروں سب نے تختہ مشق بنایا مگر، مجال ہے کہ اس مرد آہن کے پایہِ استقامت میں لغزش آئی ہو۔ ہر جبر کا مقابلہ انہوں نے حوصلے ہمت اور جرات کے ساتھ کیا۔ اس وقت لاہور کے نوے فیصد صحافی ناز صاحب کے ہاتھوں سے لگائے ہوئے پودے ہیں، نہ صرف لاہور بلکہ پورے ملک میں موجود صحافی اسی محسن کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ جس کا پھل ساری قوم حاصل کر رہی ہے۔ ان کی نماز جنازہ میں موجود ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر شاگرد اپنے محسن کے کوچ کرنے پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ پروفیسر کالونی کے ای بلاک سے جاگنگ ٹریک تک تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

ڈاکٹر ناز گزشتہ کچھ عرصے سے شوگر اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ جو بالآخر ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ صحافت کا ناز احسن اختر ناز اپنی ابدی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ بوجھل دل کے ساتھ ای بلاک سے وی سی گراؤنڈ اور پھر قبرستان میں بھی اپنے محبوب معلم کو واپس نہیں لا پایا۔ اپنے ہاتھوں سے خاک کا پیرہن پہنا کر آگیا۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز کے انتقال سے ابلاغیات کا شعبہ ایک شفیق اور ہر دلعزیز استاد سے محروم ہوگیا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

(آمین)

سید امجد حسین بخاری

Post a Comment

0 Comments