شیلے کی مشہور نظم کوئین میب کی اشاعت کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ انقلابی خیالات پرمبنی یہ نظم شیلے کے ان خیالات کی ترجمانی کرتی ہے جن پر اس کے فکری اور شعری نظام کی بنیاد قائم ہے۔ شیلے پورے نظام کو بدلنا چاہتا تھا۔ معاشرے میں اصلاحی نظام لانا چاہتا تھا۔ جس میں عام انسان کو سہولت مل سکے۔ وہ فطری ماحول کو واپس لانا چاہتا تھا۔
وہ اس میں ایک جگہ کہتا ہے۔ ’’مجھے واپس اس دھرتی ماں کی طرف جانے دو، جہاں میں اپنے ہاتھوں سے کھیتوں اور جنگلوں سے اپنی خوراک حاصل کر سکوں۔‘‘ شیلے نے اس کتاب کی اشاعت کا انتظام خود کیا۔ 120 کاپیاں پریس سے نکلوائیں۔ 50جاننے والوں کو اس نے چوری چوری تقسیم کیں اور 70پریس میں رکھوا دیں اور سختی سے منع کر دیا کہ یہ تقسیم نہ کی جا ئیں۔ جس دوست کے پاس یہ کاپیاں محفوظ تھیں اس کا نام ولیم کلارک تھا۔ 1821 ء میں ( شیلے کی وفات سے ایک سال پہلے ) وہ یہ کتاب مارکیٹ میں لے آیا۔
بقول ایک نقاد، لوگ اس کتاب پر جھپٹ پڑے۔ شیلے نہیں چاہتا تھا کہ اس کے خیالات کی وجہ سے لندن کے لوگوں میں اس کے خلاف مزید نفرت پھیلے۔ چنانچہ اس نے ولیم کلارک کے خلاف مقدمہ کیا۔ حکومت نے ولیم کلارک کو جیل بھیج دیا۔ کتاب ضبط کرلی۔ 1830ء میں اس کتاب کے 12ایڈیشن چھپے۔ شیلے اپنے نظریات کی مقبولیت دیکھنے کیلئے زندہ نہ رہا۔ کہتے ہیں اتنا کچھ لکھنے کے باوجود شیلے کو اپنی شاعری سے ساری زندگی میں صرف 40پائونڈ کا فائدہ ہوا۔
لیکن اسکے خیالات سے پوری دنیا مستفید ہوئی اور یہاں تک مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کی شاعری اور اس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شیلے کا ڈراما بڑی اہم تخلیق ہے۔ یونانی المیہ نگار اسکائی لیس کے مشہور ڈرامے کی یہ جدید شکل ہے شیلے نے اس میں اپنی فکر اور نظریات کو شامل کر کے اسے آزادی اور ظلم اور آمریت کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اسکائی لیس کے ڈرامے میں ہیرو کو آسمان سے آگ چرا کر زمین کے انسان کو دینے کے جرم میں کاکیشیا کی چوٹی پر باندھ دیا گیا تھا جہاں عقاب دن بھر اس کو نوچتے رہتے تھے۔
شیلے نے ا سے ایک ایسے انسان کا روپ دے دیا ہے جو ظلم اور آمریت کے خلاف سر نہیں جھکاتا۔ آمریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھتا ہے اور آخر فتح اس کی ہوتی ہے۔ اور وہ آزادہو جاتا ہے۔ میں قریب قریب انہی نظریات کا پر چار ہے۔ شیلے کے بارے میں نقادوں کا یہ خیال ہے کہ شیلے دراصل انسانوں کے اندر سوئے جذبوں کو جگانا چاہتا تھا۔ جو بات ٹالسٹائی نے بہت بعد میں کہی کہ انقلاب انسانوں کے اندر سے نمودار ہوتا ہے۔
شیلے اسی جذبے کو انسانوں کے اندر پیدا کر نا چاہتا تھا۔ انسان خوشگوار زندگی صرف اس وقت گزار سکتا ہے جب وہ آزاد ہو اور اسی آزادی کے لئے شیلے انسانوں کو اکساتا ہے۔ شیلے کا نظریہ تھا کہ غلامی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شیلے کے بارے میں مشہور ے کہ وہ پرندوں کو بھی پنجروں میں رکھنے کے خلاف تھا ۔ پیرس سے جب وہ گدھے پر سامان رکھ کر لندن جا رہا تھا تو ایک گائوں کے قریب اسے ایک چڑی مار ملا جو چڑیوں اور فاختائوں کو پکڑ کر جا رہا تھا۔
شیلے نے اسے روکا اور سب پرندوں کی قیمت ادا کر کے پرندوں کو آزاد کر دیا۔ شیلے رومانوی شعرا (ورڈز ورتھ، کولرج، بائرن اور کیٹس) میں سے واحد شاعر تھا جس میں غنائیت اور مٹھاس کا عنصر سب سے زیادہ تھا۔ فطرت کی خوبصورتی اور حسن کا وہ زندگی بھر عاشق رہا۔ نقاد کہتے ہیں کہ ورڈز ورتھ آخری عمر میں نیچر سے کچھ دور ہو گیا تھا لیکن شیلے ساری عمر فطرت اور فطرت کی رعنائیوں میں ڈوبا رہا اور اسی سے اس نے انقلابی سوچ کو مضبوط تر بنایا۔ کزامیاں اس کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’شیلے کا تعلق انسانوں کے اس مخصوص گروہ سے تھا جنہوں نے جذبات اور ادراک کے مرکب سے انقلابی ذہن کو تیار کیا۔ بچپن سے جوانی تک یہ چنگاری اس کے اندر سلگتی رہی۔‘‘ شیلے کو ساری زندگی مشکلات کا سامنا رہا جن کا شیلے نے بڑے صبر اور جرأت سے مقابلہ کیا۔
یہ حوصلہ شیلے نے محبت سے حاصل کیا۔ اس کی محبت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی۔ اس کے حصار میں ہر جاندار مخلوق آتی تھی۔ جن میں جانور، پرندے، درخت، پھول، بادل، ہوا سب ہی شامل تھے۔ شیلے میں کائنات سے ہم کلام ہونے کا ہنر موجود تھا۔ وہ کبھی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کبھی سے اور کبھی بادل سے…! ہو یا کیٹس پر لکھی گئی ڈراما ہو یا نظم اس کی بے مثال عنائیت، تمثال اور جذبہ ہر سطر میں موجود ہوتا ہے۔
شیلے کے آخری ایام بائرن کے ساتھ اٹلی میں گزرے۔ جہاں اسکے ساتھ اس کے چند دوست بھی تھے جن میں مشہور شاعر لی ہنٹ اور ٹری لانی بھی تھا۔ سمندر اور سمندرکا پانی بچپن ہی سے شیلے کو بہت حیران کرتا تھا اور وہ کہتا تھا اوریہ بات سچ ثابت ہو ئی اور 8جولائی1822ء کو پانی سالگرہ سے ایک ماہ قبل تیس برس کی عمر میں شیلے ایک سمندر ی طوفان کی نذر ہو گیا۔ وہ بائرن کی کشتی لے کر اپنے دو دوستوں کے ساتھ سمندری سفر پر جانے کے لئے تیار ہوا۔
کشتی کے ایک طرف اس نے کا نام لکھوایا۔ بائرن کو یہ بات پسند نہ آئی اور شیلے کو کے حروف مٹانے کے لئے کہا۔ شیلے نے یہ بات نہ مانی اور اپنے لئے دوسری کشتی حاصل کی۔ دوستوں کو ساتھ لیا اور سمندری سفر پر روانہ ہو گیا۔ میری شیلے نے شیلے کی 1822ء میں لکھی نظموں پر دیباچہ لکھ کر ایک کتاب شائع کی تو اس کے دیباچے میں یہ بات لکھی کہ شیلے نے جس کشتی پر سفر شروع کیا وہ سفر کے قابل نہ تھی اسے لوگوں نے روکا مگر وہ سفر پر جانے کے لئے بضد تھا۔
شیلے کی موت کے بعد مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کسی نے کہا شیلے ان دنوں بہت نا اُمید تھا اور مرنا چاہتا تھا۔ کسی نے کہا اس کشتی کو بائرن کی کشتی سمجھ کر بحری قزاقوں نے لوٹنے کی غرض سے حملہ کیا۔ کسی نے اس کی موت کو سیاسی قتل قرار دیا۔ کیونکہ اس پر پہلے ایک حملہ ہو چکا تھا۔ بہر حال اس کی موت کے ایک دن بعد اخبار میں جلی حروف میں اس کی موت کی خبر چھپی۔ شیلے ۔ شاعر سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔ اب اسے پتا چل گیا ہو گا کہ خدا ہے کہ نہیں۔
احمد عقیل روبی
0 Comments