Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

لارڈ بائرن عظیم رومانوی شاعر

لارڈبائرن رومانو ی عہد کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت بے پایاں تھی اور قارئین اختلاف کے باوجود اسے پڑھنے پر مجبور تھے۔ میتھیو آرنلڈ کا یہ جملہ سچائی پر مبنی ہے ،جو اس نے بائرن کے بارے میں کہا تھا: ’’لارڈ بائرن لکھنے پر مجبور ہے اور ہم اسے پڑھنے پر مجبور ہیں۔‘‘ ایک جملہ لیڈی کیرولین لیمب نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے کیونکہ وہ یہ جملہ کہنے پر مجبور تھی۔

 یہ اس کا ذاتی تجربہ تھا: ’’بائرن ایک پاگل اور بُرا آدمی تھا، جس سے آشنائی خطرے سے خالی نہ تھی۔‘‘ بہر حال یہ ’’پاگل اور برا آدمی‘‘ 22 جنوری 1788ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ باپ کا نام جیک بائرن تھا، جسے لوگ پاگل جیک کہتے تھے۔ اس کا داد ا بحریہ میں بڑا افسر تھا اور لوگ اسے  کے نام سے یاد کرتے تھے۔ بائرن کا دادا بھی عجیب آدمی تھا۔ آخری دنوں میں بقول اس کی نوکرانی وہ کثرت مے نوشی کے بعد فرش پر لیٹ جاتا اور تمام گھر کی مکڑیوں، چوہوں اور چھپکلیوں کو آو از دے کر بلاتا، وہ آکر اس کے جسم پر رینگنے لگتے اور جب انہیں جانے کے لئے کہتا تو وہ سب کے سب چلے جاتے۔

 جب وہ مرا تو یہ کہا جاتا ہے کہ سب رینگنے والے گھر سے رخصت ہو گئے۔ بائرن کی والدہ جھگڑا لو عورت تھی، بائرن کا باپ مرا تو اس نے بائرن کی پرورش کی، لیکن وہ اپنی گرم مزاجی کی وجہ سے بائرن کیلئے مصیبت بنی رہی۔ جب بائرن سکول میں پڑھتا تھا، تو لڑکے اس سے پوچھتے تھے: ’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن جواب میں کہتا ’’ہاں! پاگل ہے۔‘‘ بائرن کا ایک پائوں پیدائشی طور پر ٹیڑھا تھا اور وہ ہلکا سالنگڑا کر چلتا تھا۔ بچپن میں بائرن کی ماں اسے ایک اناڑی ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔

 اس ڈاکٹر نے بائرن کا پیر شکنجے میں جکڑ دیا اور بائرن کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ پانی کا ایک بڑا بیرل اٹھا کر ایک گھنٹہ گرائونڈ میں چلے اس سے بائرن کا پائوں اور بگڑ گیا اور ساری زندگی وہ لنگڑا کر چلتا رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ لندن کی خواتین اس لنگڑے پن کو بھی اس کے حسن کا حصہ قرار دیتی تھیں۔ بائرن کو اپنے دادا کی طرف سے ڈھیر ساری دولت ملی، جو اس نے عیاشیوں پر اڑا دی۔ اسے لارڈ شپ کا خطاب بھی ملا۔ وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا، جہاں جا کر اس نے دو تقریریں کیں،جن میں خطابت کے ایسے جوہر دکھائے کہ پورا لندن اس کے خلاف ہو گیا۔ 

ان میں سے ایک تقریر تو لندن اور لندن میں رہنے والوں کی زندگی کے بارے میں تھی، جس میں اس نے اشرافیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری تقریر مزدوروں کے حق میں اور مشینوں کے خلاف تھی ،جن کی وجہ سے مزدور بیکار ہو گئے تھے۔ لارڈ بائرن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے مزدوروں پر بڑی زد پڑی ہے۔ ایک مشین کی وجہ سے 50 مزدوربے کار ہو جاتے ہیں۔ اس نے کہاکہ ریاست اور مذہب میں فرق ہونا چاہیے۔

 ہر مذہب کو آزادی ملنا چاہئے۔ ہر مذہب کے پیرو کار اپنی مرضی سے اپنی رسومات ادا کریں۔ صرف ایک مذہب کو سرکاری مذہب نامزد نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائرن کے ان نظریات سے اس کے خلاف ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا ار اس کے عشق کا چرچا لندن کی ہر گلی اور ہر گھر میں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مخالفت سے تنگ آکر وہ اپنے چند دوستوں کو ساتھ لے کر دنیا کی سیر پر نکل کھڑا ہوا۔ لوگوں سے ملا۔ ان کی نفسیات کو سمجھا اور فطر ت کے خوبصورت نظاروں کی سیر کی۔ واپس لندن آیا جو کچھ اس نے لکھا تھا، اسے چھپوایا۔

 رات کو سویا، دن کو جاگا تو اس کی کتاب چھپ چکی تھی اور وہ انگریزی زبان کا مشہور شاعر بن چکا تھا۔ لارڈ بائرن خود کہتا ہے: ’’میں رات کو سویا صبح بیدار ہوا تو میں مقبول ترین شاعر بن چکا تھا‘‘۔ لارڈ بائرن کی پہلی باقاعدہ شاعری کی کتاب جس میں اس کی پرانی اور نئی نظمیں شامل تھیں، وہ تھی۔ اس کی مشہور نظموں نے اپنے قارئین کا ایک حلقہ پیدا کر لیا تھا۔ اس کی نظمیں   مقبولیت کی انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔ بائرن کی مشہور نظم  سترہ کنٹوز پر مشتمل ہے، جسے اپنے وقت کی   شا ہکار کہا جاتا ہے۔

 کچھ نقاد اس نظم کو ایک اعلیٰ تخلیق قرار دیتے ہیں ،جو ادبی روایت سے مالا مال ہے۔ اس نظم نے اس کے ہم عصر شعرا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 1819ء تک اس نظم کے کنٹوز ایک ایک کر کے چھپتے رہے، لیکن پھر پبلشر نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا کیونکہ قارئین بائرن سے اختلاف کرنے لگے تھے۔ بائرن نے ورڈزورتھ اور کولرج پر سخت تنقید کی تھی، جو قارئین کو پسند نہ تھی۔

 بائرن نے 1821 ء میں اپنے دوست  کو خط میں لکھا: ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرے جیسے مزاج کے آدمی کو زیادہ دیر زندہ رہنا چاہئے۔‘‘ بائرن اپنے دوستوں کا بہت وفا دار تھا۔ چنانچہ  نے جواب دیا: ’’ جس کے دوست اتنے وفادار ہوں، وہ زیادہ دن زندہ رہتا بھی نہیں۔‘‘ بائرن نے برطانیہ اور امریکا پر شاید اتنے اثرات نہ چھوڑے ہوں، مگر بقیہ یورپ پر اس نے گہرے اثرات مرتب کئے۔ روس کا بڑا شاعر پشکن اسے عظیم شاعر مانتا تھا۔ پشکن نے بائرن کو اپنا آئیڈیل شاعر بنا کر اپنی شاعری کو آگے بڑھایا۔ بائرن نے ماں باپ کے گھریلو جھگڑوں سے بہت اثر قبول کیا۔ اپنے ٹیڑھے پائوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکر مند رہا۔

 لندن کے لوگوں کی نفرت نے اسے ساری زندگی چین کی سانس نہ لینے دی چنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر وہ لندن اور لندن کے لوگوں سے باغی ہوگیا، یورپ میں پناہ لی اور اسے بدنامیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ بائرن کو جانوروں سے بڑا عشق تھا۔ اسے شاید انسانوں میں محبت اور وفا نہ ملی، جسے و ہ جانوروں میں ڈھونڈتا رہا۔ مختلف اوقات میں اس نے مختلف جانور پالے۔ لومڑی، بندر، طوطا، بلی، عقاب، کوا اور مور، لیکن سب سے زیادہ محبت اسے اپنے کتے سے تھی۔ 

جب اس کا کتا بیمار ہوا، تو وہ اس کی تیمار داری میں اپنی شاعری تک کو بھول گیا اور جب یہ کتا مر گیا تو اسے خود دفنایا۔ 1823ء میں یونانیوں اور ترکوں کی جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج نے لی پانٹو نامی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ بائرن یونان کا شیدائی تھا چنانچہ اس نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ اس نے یونانی جرنیل کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا کہ قلعے کو ترک فوج سے آزاد کر ایا جائے۔ اس حملے میں بائرن زخمی ہو گیا۔علاج شروع ہوا تو تیز بخار نے آ لیا اور بیماری لاعلاج ہو گئی۔ بائرن 19 اپریل 1824ء کو فوت ہو گیا۔ 

فوج میں وہ بہت مقبول تھا اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ ا گر بائرن زندہ رہتا  تو اسے یونان کا بادشاہ بنا دیا جاتا۔ بائرن کو لندن میں دفن کرنا تھا۔ یونانی اس بات پر بضد تھے کہ اسے یونان میں دفنایا جائے چنانچہ بائرن کا دل   میں دفنایا گیا۔ اس کا باقی جسد خاکی لندن روانہ کر دیا گیا، لیکن لندن کے پادریوں نے اسے   میں جگہ دینے سے انکار کر دیا اور اس کی میت دو دن کھلے عام پڑی رہی۔ دو دن کے بعد اسے سینٹ میری چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور اس کی ایک نظم کے مصرعے چارو ں طرف گونجتے رہے: اے انگلستان تو مجھے سب خامیوں کے باوجود پسند ہے مجھے تیرا موسم پسند ہے اگر بارش نہ ہو تیری پارلیمنٹ کی بحث پسند ہے ،اگر وہ دیر سے شروع نہ ہو تیرے ٹیکس پسند ہیں، اگر وہ زیادہ نہ ہوں اے انگلستان تو مجھے سب خامیوں کے باوجود پسند ہے۔

احمد عقیل روبی

Post a Comment

0 Comments