کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہُوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
سلام اس شہنشاہِ ہر دو سرا پر
درود اس امامِ صفِ انبیاء پر
پیامی تو بے شک سبھی محترم ہیں
مگر اﷲ اﷲ خصوصی پیامی
فلک سے زمیں تک ہے جشنِ چراغاں
کہ تشریف لاتے ہیں شاہ رسولاں
خوشا جلوہ ماہتابِ مجسم
زہے آمد آفتاب تمامی
کوئی ایسا ہادی دکھادے تو جانیں
کوئی ایسا محسن بتا دے تو جانیں
کبھی دوستوں پر نظر احتسابی
کبھی دشمنوں سے بھی شیریں کلامی
اطاعت کے اقرار بھی ہر قدم پر
شفاعت کا اقرار بھی ہر نظر میں
اصولًا خطاؤں پہ تنبیہ لیکن
مزاجاً خطا کار بندوں کے حامی
یہ آنسو جو آنکھوں سے میری رواں ہیں
عطا ئے شہنشاہ ِکون و مکاں ہیں
مجھے مل گیا جامِ صہبائے کوثر
میرے کام آئی میری تشنہ کامی
فقیروں کو کیا کام طبل و عَلم سے
گداؤں کو کیا فکر جاہ و حشم کی
عباؤں قباؤں کا میں کیا کروں گا
عطا ہو گیا مجھ کو تاجِ غلامی
انہیں صدقِ دل سے بلا کے تو دیکھو
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
لیے جاؤ عقبی میں نامِ محمد ﷺ
شفاعت کا ضامن ہے اسمِ گرامی
کلام : مولانا ماہر القادری
0 Comments