بچپن ہی سے مجھے کہانیاں اور نظمیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل کے لیے میں پیسے بچا کر کہانیوں اور نظموں والی کتابیں خریدتا رہتا تھا۔ پھر کتابیں پڑھنے کا چسکا ایسا لگا کہ مطالعہ کرنا عادت بن گئی۔ یوں تو بچپن میں بہت سی کہانیوں اور نظموں والی کتابیں پڑھیں لیکن ایک شاعر ایسا بھی تھا جس کو پڑھنے کے بعد مجھے ان سے لگاو سا ہوگیا اور میں نے مارکیٹ میں موجود نظموں اُس کی ساری کتابیں نہ صرف خریدلیں بلکہ پڑھ بھی ڈالیں۔
چلو آج آپ کو بھی اپنے پسندیدہ شاعر سے ملوا ہی دیتے ہیں۔ ان کا نام صوفی غلام مصطفی تبسم تھا۔ آپ اگست 1899 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول امرتسر میں حاصل کی۔ 1923 میں ایف سی کالج لاہور سے بی اے (آنرز) کیا۔ 1924 میں اسلامیہ کالج سے ایم اے فارسی اور 1926 میں سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ٹی کیا۔ امرتسر میں اسکول ٹیچر کی حیثیت سے نوکری کی ابتداء کی، بعد میں امرتسر ہی میں انسپکٹر آف اسکولز مقرر ہوئے۔ 1927 تا 1931 سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں لیکچرار رہے۔ 1941 میں گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں فارسی و اردو کے شعبوں کے صدر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران، ریڈیو پاکستان، اقبال اکیدمی وغیرہ سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ادبی تنظیموں سے وابستہ و سرپرست بھی رہے۔ فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی میں بھی شعر کہتے تھے۔ آپ نے اقبال، امیر خسرو اور شیکسپیر کی تخلیقات کے مثالی تراجم بھی کئے۔
صوفی غلام مصطفی تبسم کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ خوش مزاج تھے۔ آپ کو چھوٹے بچوں سے لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ نے بچوں کے لیے پیاری پیاری نظمیں تخلیق کیں۔ آپ نے بچوں کی نظموں کے لیے ٹوٹ بٹوٹ کے نام سے ایک لڑکے کا کردار تخلیق کیا اور یہ نظم آج بھی پرائمری لیول کی کتابوں میں کورس کا حصہ ہے اور جسے بچے پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ان کے کردار ٹوٹ بٹوٹ نے مقبولیت حاصل کی تو آپ نے اس نام سے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی جس میں بہت سی نظمیں شامل ہیں اور آج بھی والدین اپنے بچوں کو یہ نظمیں پڑھ کر سناتے ہیں۔
ارشاد حسین
0 Comments