Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ایک منفرد نعت گو شاعر: لالۂ صحرائی....


علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی

لیکن لالۂ صحرائی نے شائد قدرت کے مقاصد کی نگہبانی نہ کی ہو، مگر قدرت کے ان مقاصد کی ترجمانی کا حق ضرور ادا کر دیا ہے، جو اس نے مولائے کُل، ختم الرسل، تاجدار مدینہ، راحت قلب و سینہ نبی پاک ؐ کی اِس دُنیا میں تشریف آوری کے سلسلے میں انسانیت کی رہنمائی اور فلاح و بہبود کے سلسلے میں متعین کئے تھے۔ لگتا ہے کہ قدرت نے اس مقصد کے لئے ان کی خاص رہنمائی اور تربیت خود کی تھی، وہ ایک نیم خواندہ گھرانے میں امرتسر ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے،جہانیاں کے نیم ترقی یافتہ اور نیم صحرائی علاقے میں پروان چڑھے۔

 حالات کی تلخیوں اور زمانے کی چیرہ دستیوں نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رکھا، مگر اب ان کے کام پر ایم فل تک تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ جہانیاں میں انہیں نیم خواندہ، مگر انتہائی مہذب اور سادہ خاندانی ماحول، تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب سے تشریف لانے والے عابد و زاہد حکیم محمد عبداللہ سلیمانی کی سرپرستی اور ان کے فرزندانِ ارجمند عبدالحمید اور چودھری نذیر احمد کی رفاقت نصیب ہوئی اور مولانا مودودی ؒ کی فکری رہنمائی اور روحانی آبیاری نے چودھری محمد صادق کو لالۂ صحرائی کے روپ میں وہ تازگی، زبان کی شائستگی، فصاحت اور رنگ و ادب بخشا کہ دُنیا ان کی گرویدہ ہو گئی۔

انہوں نے اپنی قوتِ ارادی ،غیر معمولی ریاضت اور اللہ کے فضل سے شعر وادب میں جو مقام پیدا کیا، اپنی تحریروں کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو اس طرح جاذبِ دل اور خوشگوار بنایا کہ لوگوں کے دِلوں میں جاگزیں ہو گئے، اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی قلمی یلغارکا اس طرح بھرپور جواب دیا کہ حریفوں کے دانت کھٹے ہو گئے اور انہیں منُہ کی کھانی پڑی۔اللہ تعالیٰ نے انہیں کمال صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت ایک افسانہ نگار، داستان گو، بلند پایہ انشا پرداز ،زبردست طنز نگار، باکمال قلمی مصور، معتبر قلمی نقاد اور سب سے بڑھ کر عشق رسول ؐ کے جذبے سے سرشار نغمہ نگار تھے۔ وہ انگریزی اور اُردو پر یکساں دسترس رکھتے تھے اور ایک صاحب طرز ادیب تھے، جن کی تحریر سادگی اور پُرکاری کا خوبصورت نمونہ تھی۔ انہوں نے نعت نگاری کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔۔۔ اس 

میں ید طولیٰ حاصل کیا، فرماتے ہیں:
نعت میری شاعری اور نعت میری زندگی
نعت کے انوار سے تابندہ میری موت ہو
جب کرے پرواز دُنیا سے میری روح نزار
شور ہو افلاک میں اک اور آیا نعت گو
(از نعت چراغاں)

اس جہان عارضی میں جن بزرگوں نے دین و دنیا میں اپنا مقام پیدا کیا ہے، اُن میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کی والدہ نے اُنہیں بچپن میں قرآن مجید کی تلاوت کی لوریاں دی ہیں۔ بعض بزرگوں نے اپنی والدہ کی زبان سے قرآن مجید کی تلاوت سُن کر ہی قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت بھی حاصل کی ہے، بعض نے قرآن مجید سے اپنی محبت کا حق خلقِ خدا کی رہنمائی کر کے ادا کیا ہے۔ محترم لالۂ صحرائی کی والدہ محترمہ نے دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے باوجود گھر میں چکی پیستے ہوئے سورۂ یٰسین کی تلاوت پر مداحت فرما کر اپنے بچوں سے نہ صرف اس سے لگاؤ پیدا کر دیا، بلکہ ان کے دلوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت پیدا کی اور ان کے دلوں کو انوارِ قرآن کا مرکز بنا دیا، جس کے زیر اثر ان کے دل میں صاحب قرآن سے ایسی لگن پیدا ہوئی کہ ان کی زبان بلبلِ ریاض رسولؐ بن گئی اور ان کی ذات لالۂ صحرائی بن گئی، جو اپنے حسن و سیرت میں، شگفتگی میں بے مثال اور لازوال ہوتا ہے۔

علامہ اقبال ؒ کو بھی گلِ لالہ سے انتہائی پیار تھا اور انہوں نے اسے عشق کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری محمد صادق مرحوم نے بھی عشق رسول ؐ میں خود کو لالہ صحرائی کہلانا پسند کیا اور اپنی شاعری میں اس کا حق ادا کر دیا ہے۔جہاں تک ان کی شاعری کے فنی محاسن اور ان کے طرز ادا کا تعلق ہے، مَیں یہ کام ان پر ایم افل کرنے والے دانشوروں پر چھوڑتا ہوں، لیکن ان کے کلام سے روحانیت کی پھوٹنے والی خوشبو اور عشق رسول ؐ میں ڈوبے ہوئے الفاظ کی مہلک کو محسوس کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی جسارت مَیں ضرور کروں گا، کیونکہ ان کی نعت انسان کے دل کے تاروں کو اس انداز سے چھیڑتی ہے کہ وہ اس کے سرور میں مگن ہو کر عرفان کی معرفت کی حدوں کو چھونے لگتا ہے، نعت شفق میں فرماتے ہیں:

برباں دل اور گریاں آنکھ
میری نعت کا ہے معیار
نعت ہی میرا فعل و عمل
میرا قول میری گفتار
نعت کا طرہ پایا ہے
اونچی ہے میری دستار
نعت کے عکس منور سے
چمکا ہے میرا کردار
ایماں تھا جو خوابیدہ
ہو گیا مدحت سے بیدار
اور یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا:
ان کی نعتیں اعلیٰ و ارفع
جن کا خوب بلند معیار
عشق نبیؐ میں جو ڈوبی ہیں
ان پر حجت ہے بے کار
ایسی نعتیں مَیں لکھ پاؤں
ایسا اذن ملے سرکار
بے شک لالہ صحرائی ہے
نعت نگاروں کا سردار
عشق احمد دے دے مجھ کو
تو اے میرے پالن ہار

پروفیسر شفیق کھوکھر

Post a Comment

0 Comments