Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے !....

داغ نے کہا تھا ؎
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

شاعر زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کا ذکر کر رہا تھا‘ اس کا اشارہ ان NUANCES and SEMANTICS کی طرف تھا جو زبان دانی کی شرط اولین ہیں۔ آج اگر داغ حیات ہوتے تو حیران ہوتے کہ شعر کے معنی اور مفاہیم بدل گئے ہیں۔ بانی پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ قومی زبان ہی سرکاری زبان ہوتی ہے۔ با ایں ہمہ اہل وطن گزشتہ 67 برس سے اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسمبلیاں قراردادیں پاس کرتی ہیں۔ یہ کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز ہے‘ لیکن صحیح معنوں میں اس کا نفاذ نہیں ہو سکا۔ وجہ؟

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری قومی زبان اردو نے جس طرح کسمپرسی کے عالم میں کبھی انصاف طلب نگاہ سے ارباب بست و کشاد کو دیکھا اور کبھی امداد طلب نظروں سے اہل وطن کو پکارا ہے۔ وہ ہماری قومی تاریخ کا المناک باب ہے۔ خاص طورپر ہمارے مغرب زدہ طبقے نے جو غیرت‘ مخاصمت‘ کدورت اور عدم توجہی اس زبان کے ساتھ روا رکھی ہے‘ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ ایک طویل جدوجہ اور قربانیوں کی خونچکاں داستان رقم کرنے کے بعد ایک نئی مملکت تو وجود میںآگئی‘ لیکن فکر و نظر آزاد نہ ہو سکی۔ غلامانہ ذہنیت نہ بدلی۔ حاکمانہ روش سرشتہ خمارِ رسوم و قیود رہی۔ ایک انتہائی قلیل لیکن منظم و موثر گروہ پیرتسم پا کی طرح قوم کے اعصاب پر سوار رہا۔

پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر اونچے طبقے میں اردو کا لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا رہا۔ کسی کی علمیت کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ’’ یار وہ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے‘ اسے اردو بالکل نہیں آتی۔ اعلیٰ سروسز تک رسائی‘ ترقی کے مواقع‘ سماجی حیثیت اور مرتبے ایک ایسی زبان کے مرہون منت رہے ہیں جس سے ملک کی پچانوے فیصد آبادی قطعی طورپر نابلد اور آشناہے۔ ایک طویل عرصہ تک قوم کو طفل تسلیاں دی جاتی رہیں کہ اردو کو جلدہی اس کا جائز مقام دیا جائے گا۔ ایک مدت تک اہل وطن اس فریب وعدہ فردا پراعتبار کرنے کے خوگر ہو گئے۔

یہ امر مسلمہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم اپنی زبان کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی۔ جس طرح ایک فرد واحد بغیر زبان کے گونگا ہوتا ہے‘ اسی طرح قومیں بھی بغیر زبان کے گونگی ہوتی ہیں۔ اردو جس کو ایک ارب لوگ بولتے‘ لکھتے‘ پڑھتے یا سمجھتے ہیں‘ محض اس لئے طاق ِنسیاں میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ اس میں جدید سائنسی علوم کو اپنے اندر سمونے یا جذب کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس مدقوق منطق کا اس وقت بھی سہارا لیا گیا تھا جب لاطینی زبان میں لکھے گئے علوم کو انگریزی کے قالب میں ڈھالا جا رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ستر فیصد سائنسی علوم دیگر زبانوں میں ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ انگریزی کے ساتھ روسی‘ چینی‘ جرمنی‘ فرنچ‘ اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی پڑھی جائیں۔

دراصل جب ہم اردو کی ترقی اور ترویج کی بات کرتے ہیں تو انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ کسی بھی زبان کا جاننا ایک احسن اور مفید بات ہے۔ اس سے فکر کو جلا ملتی ہے اور اذہان کے کئی بند در وا ہوتے ہیں۔ یہ زبان ضرور سیکھیں‘ لیکن اردو کی قیمت یا قربانی دیکر نہیں۔ پہلے اپنی زبان سیکھیں‘ اس پر فخر کریں پھر جو بھی زبان سیکھیں گے وہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔

غلذم حیدر وائیں سابقہ وزیراعلیٰ پنجاب غالباً پہلا حکمران تھا جس نے ہر مصلحت سے ماورا ہوکر یہ فرمان جاری کیا کہ انہیں تمام سمریاں اردو میں بھیجی جائیں۔ اس نے تمام نوکرشاہی میں ایک تشویش کی لہر دوڑا دی۔ کچھ دیر تک بادل نخواستہ اس پر عمل تو ہوا‘ لیکن ان مفاد پرستوں نے چارسُو پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ وزیرعلیٰ ان پڑھ ہے‘ انگریزی زبان سے نابلد اور ناآشنا ہے جبھی تو اردو کو اس نے حرزِجاں بنایا ہوا ہے۔

یہ کالے انگریز باہر جا کر کچھ ایسا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے انہوں نے اس ملک میں پیدا ہوکر بہت بڑی غلطی کی ہو۔ انہیں اردو اس لئے نہیں آتی کہ انہوں نے کبھی سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شیرینی اور دلکشی سے ناآشنا ہیں۔ ہماری شاعری کسی دیگر زبان میں لکھی گئی شاعری سے کم تر نہیں ہے۔ غالب کا شمار دنیا کے دس بہترین شعرا میں ہوتا ہے۔ اگر ڈنڈی نہ ماری جائے تو اس سے بہتر شاعر پیدا نہیں ہوا۔ تقابلی جائزہ لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے‘ تاہم میں دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ شیکسپیئر نے زندگی کی بے ثباتی‘ ناجوازیوں اور زیادتیوں کا ذکر اپنے ڈرامے کے ایک کردار سے ان الفاظ میں کرایا ہے۔

OUT,OUT BRIEF CANDLE, LIFE IS BUT A WALKING SHADOW, IT IS LIKE A POOR PLAYER, WHO STRUTS and FRETS HIS HOUR UPAN THE STAGE AND IS THEN HEARD NO MORE, IT IS A TALE TOLD BY AN IDIOT FULL OF SOUND AND FURY SIGNIFITING NOTHING

اتنے لمبے چوڑے خیال کو فانی نے ایک شعر میں باندھا ہے ؎
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کوہے خواب ہے دیوانے کا
یا غالب نے کہا تھا ؎
خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود

اسی طرح ALLITRATION ادب کی ایک صنف ہے جس میں ہم وزن الفاظ کی تکرار سے عبارت میں حسن پیدا کیا جاتا ہے۔
(Recurrance of The same initial SOUND)

جیسے شیلے نے کہا تھا ؎
MILLIONS OF MILES MEANDRING THROUGH THE MAZY MOTION

اب جوش کی ایلپٹریشن دیکھیں ؎
گلشن نہ گلبان نہ گلابی نہ گل صرار
بلبل نہ باغباں نہ بہاراں نہ برگ و بار
جیئوں نہ جام جم نہ جوانی نہ جوئبار
سرد سہی نہ ساز نہ سنبل نہ سبزہ زار
ابر کرم نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

جوش نے جس کیفیت کا ذکر کیا تھا وہ آج بھی ساری قوم پر طاری ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ‘ اپنے آسیب کے تابوب اٹھائے ہوئے لوگ‘ حاکموں کی حرص و ہوس کے اسیر‘ بے بسی اور بے کسی کی زندہ تصویر‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کے باعث خطِ غربت سے بھی بہت نیچے۔ باایں ہمہ حکمرانوں کی ہمت اور حوصلے کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔

 پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے۔ غربت اور افلاس کو مار بھگائیں گے۔ ہر طرف پُن برسے گا۔ چار سُو من و سلویٰ اترے گا۔ ’’راہی مسافر جنگل میں سونا اچھالتے ہوئے جائیں گے اور کوئی نہیں پوچھے گا۔ میاں تم کون ہو اور کہاں جاتے ہو۔‘‘ چارسُو کاروان بہار خیمہ زن ہوگا۔ پاک لوگوں کی سرزمین ارضی جنت بن جائے گی… اور اس کیلئے کوئی کڑی شرط نہیں رکھی گئی… محض مہلت مانگی گئی ہے۔ آخر دو تین عشرے ہوتے ہی کتنے ہیں؟

شوکت علی شاہ

Post a Comment

0 Comments