Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

’چودھویں کا چاند ہو‘ کے خالق شکیل بدایونی......Shakeel Badayuni



ظفر سید
برخوردار، آج کے مشاعرے میں کون سی غزل پڑھو گے؟ میں نے عرض کیا، ایک تازہ غزل لکھی ہے۔ انھوں نے کہا، ’سناؤ تو ذرا۔‘ میں نے غزل کا مطلع پڑھا:
اندازِ مداوائے جنوں کام نہ آیا
کوشش تو بہت کی مگر آرام نہ آیا
 
حفیظ صاحب نے فرمایا کہ ’عزیزِ من، اگر یہ غزل کسی استاد کو سنا دی جاتی تو کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔‘ میں نے کہا ’حفیظ صاحب، اگر میں اسی غزل پر مشاعرہ نہ الٹ دوں تو نام نہیں۔ چنانچہ شب کو گورنر ہیملٹ کی صدارت میں مشاعرہ ہوا اور میں نے وہی غزل پڑھ کر بےپناہ داد حاصل کی۔‘
یہ اقتباس ہے معروف فلمی شاعر شکیل بدایونی کی آپ بیتی ’میری زندگی‘ سے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ادبی حلقوں میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہونے کے باوجود شکیل بدایونی کو عوام میں اپنی شہرت اور مقبولیت پر بےپناہ اعتماد تھا۔
شکیل کو فلموں میں گیت لکھنے کا موقع 1946 میں اس وقت ملا جب ان کے ایک دوست نے ان کی ملاقات مشہور فلم پروڈیوسر اے آر کاردار سے کرا دی۔ کاردار اس وقت ’شاہجہان‘ کی بےپناہ مقبولیت کے بعد ’درد‘ بنا رہے تھے۔ شکیل نے اس فلم کے گیت لکھے جو نوشاد کی دلکش موسیقی کی وجہ سے برِصغیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے۔ خاص طور اوما دیوی کی آواز میں یہ گیت ہندوستان کے طول و عرض میں گونجنے لگا، ’افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بےقرار کا۔‘
کسی نووارد کے لیے فلمی دنیا میں قدم جمانا آسان نہیں ہوتا۔ تاہم شکیل کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں شروع ہی سے موسیقار نوشاد جیسے چھتنار کی گھنی چھاؤں میسر آ گئی، جس کی بدولت انھیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
شکیل نے یہ آپ بیتی 1969 میں لکھ لی تھی تاہم اسے اشاعت کے لیے 2014 کا انتظار کرنا پڑا
تاہم حیرت انگیز طور پر شکیل نوشاد کی شخصیت کے کچھ زیادہ قائل نظر نہیں آتے: ’وہ ظاہری طور پر ایک بےحد خشک انسان تھے، اور نہ معلوم کیوں حد سے زیادہ اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے کوشش کرتے تھے۔‘
نوشاد کے ساتھ مل کر شکیل نے درجنوں فلموں کے سینکڑوں لازوال گیت تخلیق کیے، جن میں دلاری، دیدار، بیجوباورا، اڑن کھٹولا، آن، مدر انڈیا، گنگا جمنا، اور مغلِ اعظم جسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار اور گیت نگار کی اس جوڑی کو ہندوستانی فلمی صنعت کی مقبول ترین اور طویل ترین عرصے تک چلنے والی جوڑی کہا جائے تو بےجا نہیں ہو گا۔
ایک عرصے تک شکیل صرف نوشاد تک محدود رہے، تاہم 1960 میں انھوں نے دوسرے موسیقاروں کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا:
’میں شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نوشاد صاحب کے ساتھ گیت لکھنے میں مجھے عزت اور مقبولیت تو بےپناہ مل رہی تھی لیکن میری مالی حیثیت میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی تھی۔‘
چنانچہ انھوں نے موسیقار روی کے لیے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو‘ لکھا جو عروضی غلطی کے باوجود نہ صرف گلی گلی بجنے لگا بلکہ 1961 میں شکیل کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی پر ملا۔ اس کے بعد مسلسل اگلے دو سال انھیں ’حسن والے ترا جواب نہیں،‘ اور ’کہیں دیپ جلے کہیں دل،‘ پر فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں نوشاد کی شراکت میں بنائے گئے کسی نغمے پر یہ اعزاز نہیں مل سکا۔
نمونۂ کلام
غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شکیل کو ادبی دنیا نے بارہ پتھر دور ہی رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1940 کے بعد سے اردو شاعری نے کروٹ بدل لی تھی۔ اب ترقی پسند ادب یا پھر اس کے ردِعمل میں کی جانے والی نئی شاعری کا زمانہ تھا۔
شکیل شاید فلمی دنیا میں چلے جانے کی وجہ سے ان انقلابات کا حصہ نہ بن سکے اور آخر تک جگر، فانی، حسرت وغیرہ کے انداز میں شعر کہتے رہے۔ انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا، تاہم اس کی وجہ وہ کچھ اور بتاتے ہیں:
’ترقی پسند ادیبوں نے مجھے کبھی سنجیدگی سے نہیں دیکھا، چونکہ پروپیگنڈے کے تمام حربے مثلاً رسائل، اخبارات ہمیشہ ترقی پسند طبقے کے دست نگر رہے اس لیے میرے شاعری مشاعروں کے ذریعے صرف عوام تک محدود رہی۔‘
لیکن شاید شکیل کو اس بات کی کچھ خاص پروا بھی نہیں تھی، کیونکہ ترقی پسند شاعر بےشک رسالوں میں چھپتے ہوں، شکیل کی فلمی شاعری تو چودھویں کے چاند کی طرح ہندوستان اور پاکستان کے آسمانوں پر جگمگاتی تھی۔ اس کا ایک ثبوت خود انھی کی زبانی سن لیجیے:
’کلکتہ میں ایک بار سبھاش ہال میں طرحی مشاعرہ ہوا۔ میں مشاعرے میں پہنچا تو ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ منتظمین میرے پاس آئے تو کہا کہ ہال کے اندر ہزاروں لوگ آپ کو دیکھنے کے لیے بےتاب ہیں۔ آپ ذرا بالکونی پر کھڑے ہو کر انھیں اپنی صورت دکھا دیجیے ورنہ یہ سب ہال کے دروازی اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ میں نے بالکونی پر جا کر عوام کو سلام کیا تب کہیں جا کر وہ منتشر ہوئے۔‘

(شکیل بدایونی (تین اگست 1916 تا 20 اپریل 1970) کی 98ویں سالگرہ کے موقعے پر لکھا گیا)

Post a Comment

0 Comments