پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہی ہماری افسر شاہی نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ پاکستان میں نظام تعلیم کا ذریعہ تعلیم اردو رکھا گیا تو ایسی صورت میں افسر شاہی کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی لہٰذا اس افسر شاہی نے اس ملک میں دہرا نظام تعلیم رائج کردیا اور اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ تعلیم انگریزی کو قرار دے کر انگریزی کی بالادستی قائم کردی۔
کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنانا ایک تباہ کن عمل ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ معاشرے میں تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہوگی جسے فرد گھر کے اندر یا گھر کے باہر بولتا ہے اور اسے استعمال کرتا ہے تو اس معاشرے میں شرح تعلیم اور معیار تعلیم دونوں بلند ہوں گے۔ اس صورت میں علم رٹ کر نہیں بلکہ سمجھ کر طالب علم ذہن نشین کرے گا۔ اس طرح طالب علم میں فہم زیادہ ہوگا۔ یہی وہ روشنی ہے جو تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔ ہماری ساری تعلیم ہی اس لیے ناقص ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن میں اترنے اور اس میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ ایک طالب علم اپنا آدھا سے زیادہ وقت ایک اجنبی زبان کی گتھیاں سلجھانے میں صرف کرے گا تو دیگر علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا طالب علم زمانہ طالب علمی کی آخری منزل پر بھی ان مضامین کے مبادیات سے واقفیت حاصل نہیں کرپاتے جن پر آج کل کی دنیا گردش کر رہی ہے۔
جن خوش نصیب ملکوں میں ان کی اپنی زبان ذریعہ تعلیم ہے وہاں علم کی بڑی مقدار کم ازکم مدت میں حاصل کرلی جاتی ہے جب کہ ہمارا طالب علم انگریزی سیکھنے میں لگا ہوا ہے۔
پاکستان ان بدنصیب ملکوں میں شامل ہے جہاں اس کی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو آئین پاکستان میں اس کا مقام درج ہونے کے باوجود اس کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا۔ جس کی بڑی وجہ پالیسی ساز اداروں کا اردو کے ساتھ رویہ ہے، ان کے نزدیک اردو شعر و ادب کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس میں سائنسی، فنی، انتظامی اور دفتری خیالات کے اظہار کی صلاحیت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کا کوئی تجربہ اب تک کیا گیا ہے، کیا اردو کو اس ضمن میں کوئی ناکامی ہوئی، اس سوال کا جواب ’’نفی‘‘ میں ہے تو پھر بتایا جائے کہ اتنے اہم علمی فیصلے پر کس طرح پہنچا گیا۔ دراصل اس قسم کا اظہار عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو قومی زبان کو اپنے عروج کا زوال تصور کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو لاعلمی کی بنا پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ مخالفین کی جانب سے ایک تاثر یہ ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم سے علم کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے۔ ملک مہذب دنیا سے کٹ جائے گا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کی مخالفت کا مطلب اس زبان کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے اور نہ ہی اردو تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی سے قطع تعلق کرلیا جائے اور اپنے لیے انگریزی لکھنا، پڑھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا حرام کرلیا جائے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ انگریزی کو انگریزی کی طرح سیکھا جائے اسے ذریعہ تعلیم نہ بنایا جائے یہ ایک منفی عمل ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اردو میں سائنسی فنی اور انتظامی خیالات کے اظہار کی صلاحیت نہیں یہ خیال ضروری طور پر درست ہوسکتا ہے کلی طور پر پر نہیں اردو ذریعہ تعلیم کا مسئلہ دراصل اصطلاحات کا مسئلہ ہے۔ معمولی جملوں کو اپنی زبان ادا کرنے میں تو کسی کو بھی مشکل نہیں آتی۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب مختلف الفاظ کو اپنے خاص معنی میں استعمال کرتے ہیں مثلاً Atom بظاہر ایک لفظ ہے لیکن ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اصطلاح نام ہی اس مختصر لفظ کا ہے جو طویل جملوں کی جگہ لیتا ہے اور علوم میں نہایت مختصر بیانی پیدا کردیتا ہے۔
اردو کو یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے اور نہ ہی کوئی زبان یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس میں ساری خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں علم میں اضافہ ہوا اردو میں اصطلاح سازی پر کام ہوتا رہا ہے۔ اردو میں اب تک اصطلاح سازی کے حوالے سے جو کچھ کام سامنے آیا ہے بدقسمتی سے وہ بہت حد تک غیر مربوط اور غیر منظم رہا ہے۔ اس میں اصطلاح سازی کے اصولوں کی نسبت الفاظ سازی اور ترجمے کے اصولوں کو زیادہ مدنظر رکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اردو میں اصطلاح سازی کا عمل لفظی ذخیرے تک محدود رہا ہے۔
اس میں بھی اس بات سے قطع نظر کہ الفاظ آسان ہیں یا مشکل۔ مانوس ہے یا غیر مانوس وہ زبان کا حصہ بن بھی سکتے ہیں یا نہیں، کسی نے ہندی اور سنسکرت سے استفادہ پر زور دیا کسی نے عربی اور فارسی پر کوئی انگریزی سے استفادہ کرنے کے حق میں رہا، کسی نے علاقائی زبانوں سے استفادہ کرنے پر دلیل دی۔ ان میں خاص اردو الفاظ وضع کرنے کا رجحان سرفہرست رہا ہے۔ یہی رجحان فروغ اردو میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ سوچیے لفظ Nut کے لیے لفظ ’’سختہ‘‘ اور سائیکل کے لیے پیرگاڑی کے الفاظ کی کوشش کو کیا نام دیا جائے۔ اس طرح کی علمی کوشش نے ہمارے طالب علم کے لیے اردو زریعہ تعلیم کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ آپ کسی بھی سائنسی اور فنی کتاب کا مطالعہ کرلیں جس میں سائنسی اور فنی اصطلاحات کو خالص اردو میں ڈھالا گیا ہو ، وہ آپ کے ذہن میں اترنے کے بجائے آپ کے فہم ہی سے بالاتر ہوگی۔
اس لیے اصلاحات سازی کے حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں انھیں چاہیے ایسے تمام بیرونی الفاظ چاہے وہ کسی بھی زبان کا حصہ ہوں اردو کے مزاج کے مطابق ہوں اور اس میں آسانی سے جذب ہوسکیں قبول کرلیا جائے۔ بالخصوص سائنس اور فنی اصطلاحات کے لیے نئے الفاظ گھڑنے کی غیر ضروری کوشش اور انھیں زبردستی ٹھونسنے کی کوشش سے اجتناب کیا جائے۔ بین الاقوامی اصطلاحات جو عام طور پر دنیا کی تمام زبانوں میں استعمال ہو رہی ہیں ان کا ترجمہ نہ کیا جائے۔
ان تجاویز پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام آئے گا کہ ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے سے اردو دوغلی زبان ہوجائے گی۔ ان حلقوں سے احتراماً عرض کروں گا کہ ایسی سوچ رکھنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زبان بھی جان رکھتی ہے چاہے وہ ستم زدہ اردو ہی کیوں نہ ہو۔
زبانوں میں بیرونی زبان کے الفاظ کو زبردستی ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ اردو میں اپنے اندر نئے الفاظ بنانے اور غیر زبانوں سے اپنے مزاج کے الفاظ جذب کرلینے کی صلاحیت ہے اس لیے ہمیں ایک ایسی اردو ایجاد کرلینی چاہیے جو جدید
سائنسی دور سے ہم آہنگ ہو۔
0 Comments