میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا سر تاپا شاعر تھے، ان کو فطرت نے بڑی فیاضی سے علم کے خزانے عطا کیے تھے جن کا انھوں نے بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فطرت یا قدرت کی دی ہوئی چیز کو انسان ناطق بڑے سنبھال کر استعمال کرے۔ بحیثیت مجموعی کیونکہ اس کے حصول میں انسان کی اپنی کوئی سعی نہیں ہوتی، لہٰذا اس کے کھو جانے کا ملال بھی نہیں ہوتا۔ جون ایلیا کا پہلا مجموعہ کلام ’’شاید‘‘ ان کی شعری زندگی میں بہت پہلے آجانا چاہیے تھا لیکن وہ 30 سال کے بعد آیا وہ بھی احباب کے پرزور اصرار پر۔ کیونکہ جون ایلیا خود کہتے ہیں ’’آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں کیا؟ اس کی وجہ میرا ایک احساس جرم اور روحانی اذیت ہے۔‘‘ اردو
شعر و ادب میں ان کا نام جلی حروف میں رقم ہوگا۔
ان کی نجی زندگی یوں تو ناکام اور کرب انگیز تھی مگر وہ پیدا ہی شاعری کے لیے ہوئے تھے یوں کہیے کہ جس کے لیے وہ خلق ہوئے تھے وہ بلاشبہ نہایت کامیاب تھی۔ لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے تھے مجھے یہاں ان کی ہر دل عزیزی کے ثبوت نہیں پیش کرنے۔ شعری نشستیں اور معاشرے میں ثبوت ہیں۔ وہ مشاعروں کو لوٹ لینے کا فن جانتے تھے ان کی ایک خاصیت ان کا خوبصورت انداز بیان اور دوسرا وہ اپنی پسند کو سامعین کی پسند بنا دیا کرتے تھے ۔ جون ایلیا کی غزل میں ایک انداز سجاوٹ اور لفظی جمالیات کا ہے تو دوسرا درشتی اور کھردراہٹ کا، یہی اسلوب نگارش ہمیں ان کی نظموں میں بھی نظر آتا ہے، وہ بڑی سے بڑی فلسفیانہ گفتگو کو انتہائی سادہ پیرائے میں کہہ جاتے ہیں اس سے ان کے علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، ان کے یہاں ہمیں ایک جھنجھلاہٹ، غصہ،
بے راہ روی، بے اعتمادی، شکوک و شبہات نظر آتے ہیں، جبھی تو
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
سایہ ذات سے بھی رم‘ عکس صفات سے بھی رم
دشت غزل میں آکے دیکھ‘ ہم تو غزال ہوگئے
ان کی نظمیں توجہ کی طالب ہیں ’دو آوازیں‘ یہ نظم تو مقبول و منظور ٹھہری مگر جشن کا آسیب ، سو فسطا اور رمز کچھ ایسی نظمیں ہیں جو اپنی رمزیت اور معنویت میں یکتا ہیں۔
جون ایلیا جیسے میں نے پہلے کہا کہ وہ صرف شاعر، شاعر اور شاعر تھے، لیکن اتنے ہی مستند عالم بھی تھے، عربی، فارسی ، عبرانی، اردو اور انگریزی پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ فنون لطیفہ سے وابستہ امروہہ سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں میں ’’جون ایلیا، اقبال مہدی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، صادقین، سید قمر رضی‘‘ یہ وہ اسلاف ہیں جن کے ہونے سے ادب ہے، تنقید ہے، غزل ہے، مصوری ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ فنون لطیفہ کو ان پر ناز ہونا چاہیے تو غالباً بیجا نے ہوگا۔ جون ایلیا اندرون ذات کا مغنی ہے اور یہ کچھ جون ہی پر موقوف نہیں۔ کوئی بھی فنکار بشرطیکہ وہ حساس، صاحب فکر اور بے ریا ہو، جب یہ دیکھتا ہو کہ باہر کی دنیا اس کے اندر کی دنیا سے الگ ہے تو وہ بھیڑ میں بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے اور یہ احساس بیگانگی، رفتہ رفتہ شدت تنہائی میں ضم ہوجاتی ہے، فنکار کا یہ کرب اسے مجہول ذہنی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔
روشنی بھر گئی نگاہوں میں …ہوگئے خواب بے اماں جاناں
حال یہ ہے کہ خواہش‘ پرسش حال بھی نہیں‘ اس کا خیال بھی نہیں‘ اپنا خیال بھی نہیں
میرے زمان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب صبح فراق بھی نہیں‘ شام وصال بھی نہیں
شاعر مثالیت پسند ہواکرتا ہے۔اس کا اندرون ذات اپنے مثالیے کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہتا ہے اور جب وہ مثالیہ اسے باہر کی دنیا میں کہیں نہیں ملتا تو شکست خوردہ شاعر پھر اپنے اندر کی دنیا میں پلٹ آتا ہے۔ پھر وہ صرف خواب دیکھتا ہے۔
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہوچکے‘ اب کئی سال ہوگئے
میں نے کسی دوسرے شخص کو اپنے خیالوں میں اس طرح غلطیدہ نہیں پایا جیساکہ جون کو۔ وہ اپنے خیالوں کی دنیا میں ہی رہتے تھے۔ وہ ہمارے یہاں ٹھہرتے تھے اور اس دوران شعر و ادب کی محفلیں سجتی تھیں جن میں زاہدہ حنا، حسن عابد مرحوم، اقبال مہدی، واحد بشیر انکل آتے تھے۔ دنوں کو پر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح دن گزر گئے جیسے ہتھیلی سے ریت۔ وہ نہایت ہی ذہین و فطین واقع ہوئے تھے، ان کے علم کا شمار مجھ ایسا شخص تو کیا کرے گا انھوں نے اسماعیلیت، شام و عراق میں اسماعیلیت، جزیرہ عرب میں، اسماعیلیت یمن میں، حسن بن صباح، جوہرصیقلی، اخبار الحلاج، کتاب الطواسین، مسائل تجرید، رسالہ حکمتی اور نجانے کیا کیا کچھ لکھا، پڑھا اور کہا۔ ان کو ایک قلق غالباً یہ بھی تھا کہ اپنے بابا جان یعنی علامہ شفیق حسن ایلیا کا کام وہ شایع نہ کراسکے اور ضایع ہوگیا وہ خود کہتے ہیں ’’موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی، میرے لڑکپن کا زمانہ تھا، بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گئے۔
نجانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہوگیا۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا۔ ’’بتائیے کیا؟بتائیے بابا! کیا وعدہ؟‘‘ انھوں نے کہا ’’یہ کہ تم بڑے ہوکر میری کتابیں ضرور چھپواؤ گے۔‘‘ میں نے کہا ’’بابا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کی کتابیں ضرور چھپواؤں گا۔‘‘ مگر میں بابا سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کر سکا۔ میں بڑا نہیں ہوسکا اور میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضایع ہوگئیں۔ بس چند مسودے رہ گئے ہیں۔ یہی میرا احساس جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔‘‘
جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جون قادر الکلام شاعر اور مستند عالم تھے اور زبانوں کے عروض ، ان کی نمو ان کی صوتی حیثیت کے بارے میں بہت ہی دقیق معلومات رکھتے تھے وہ مجھ سے کہتے تھے بالے! میں تمہیں ایک مصرعہ سنا دیتا ہوں۔اس سے شعر بناؤ 11 سال کا بچہ ایک دم چونک ہی جائے گا ایک طرف والد محترم اور دوسری طرف جون ایلیا ، شعر تو ہونا ہی تھا وہ کہتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ شاعری کے لیے عربی اور فارسی پر دسترس نہیں تو کم ازکم وہ زبانیں آتی تو ہوں ۔
جس شاعر کی فارسی جتنی کمزور ہوگی۔ اس کی شاعری بھی اتنی ہی کمزور ہوگی یہی وجہ ہے کہ ن۔م راشد کی شاعری فیض احمد فیض کی شاعری سے زیادہ توانا اور مضبوط نظر آتی ہے۔ فارسی ایک لحاظ سے اردو شاعری کی ماں ہے اور اسے کافی حد تک جانے بغیر وہ معجزہ بپا نہیں ہوسکتا جو شعر کہنے کا جواز بن سکتا ہو۔ ؎
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میری اب تک کی زندگی میں اردو شاعری میں اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کو کن شاعروں نے متاثر کیا ہے تو میں کہوں گا فیض، فراز اور جون ایلیا۔
انھوں نے سہل ممتنع اور سادہ زبان میں چھوٹی بحروں میں اتنے سچے اور زندگی سے بے حد قریب قطعات کہے ہیں کہ نوجوانوں نے نہ صرف انھیں یاد کرلیا بلکہ وقت ضرورت کام میں بھی لانے لگے۔ یہ وصف خاص میرا نہیں خیال کہ کسی اور شاعر کو ملا ہو، ایک خوبصورت سے رچاؤ لیے۔ ایک ہچکچاہٹ لیے، اپنے ہی اندر ایک حیا کا پیکر، وہ شام، وہ حیا کا منبع جب کسی شعر کے قالب میں ڈھل جائے تو کچھ ایسا شعر معرض وجود میں آتا ہے کہ
ہے محبت حیات کی لذت
ورنہ لذت حیات کچھ بھی نہیں
کیا اجازت ہے‘ ایک بات کہوں؟
وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
جون چچا اپنی محنت کو لے کر ذرا بھی احتیاط نہیں کرتے تھے وہ اعتدال پسند نہیں تھے، شک و بدگمانیاں لیے ہوئے۔ ایک دم بھڑک جانے والے، کانوں کے کچے، حد درجہ سینے میں آگ پالنے والے آتش دان ۔ ان سب باتوں کے باوجود میرا ان سے ریشم کے دھاگے میں بندھا ایک رشتہ تھا اور اس رشتے کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ بہترین چچا، بہترین دوست اور بہترین استاد تھے ۔ گوکہ شاعری میں نے کی لیکن خود کو اس قابل نہ سمجھ سکا لہٰذا اس کو چھوڑ کر مصوری کی طرف آگیا، یعنی رنگوں سے شاعری جون ایلیا کی ایک خوبصورت نظم
بوئے خوش ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے رنگ ہو اور دمک رہی ہو تم
بوئے خوش خود کو روبرو توکرو
رنگ تم مجھ سے گفتگو توکرو
John Elia
0 Comments