اور جالبؔ آخری سانس تک سچ کا دم بھرتا رہا۔ 21 سال پہلے آج ہی کا دن تھا۔ 12 مارچ کی رات تھی۔ آدھی رات، شاعر نے اکھڑی اکھڑی سانسیں لیتے گزار لی تھی، رات ڈھلان کی طرف چلی تو جیسے وہ مطمئن ہو گیا ہو کہ سحر ہو کر رہے گی سورج ضرور نکلے گا۔ وہ سورج جس کے انتظار میں شدید جدوجہد کرتے اس نے زندگی گزاری تھی وہ سورج کہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے۔ اسی یقین اور ایمان کے ساتھ شاعر نے 12 اور 13 مارچ کی درمیان رات ساڑھے بارہ بجے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ وہ زندگی بھر اسی یقین کے ساتھ زندہ رہا۔
رستہ کہیں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند
ہو گا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب
شب مستقل رہے گی کبھی یہ نہ سوچیے
٭٭٭
مسکرا جان بہاراں کہ سویرا ہو گا
ختم صدیوں کے رواجوں کا اندھیرا ہو گا
شب کی تقدیر میں لکھا ہے گزر ہی جانا
راہ سورج کی کہاں روک سکے اہل ستم
تندوتیز طوفانوں میں گھری ہوئی کشتی کے مسافروں سے کنارے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ:
نہ چھوڑنا کبھی طوفاں میں آس کی پتوار
یہ آ رہی ہے صدا دم بہ دم کناروں سے
جالبؔ لوگوں سے یہی کہتا رہا، انھیں حوصلہ دیتا رہا، ہمت بندھاتا رہا کہ:
ان زمینوں پہ گہر برسیں گے
ایسے کچھ ابر ہیں چھانے والے
دیکھ وہ صبح کا سورج نکلا
مسکرا اشک بہانے والے
آس میں بیٹھے ہیں جن کی جالبؔ
وہ زمانے بھی ہیں آنے والے
حبیب احمد نام کا بچہ 24 مارچ 1928 مطابق یکم شوال (عید الفطر) 1346 ہجری بروز ہفتہ صبح ساڑھے آٹھ بجے گاؤں میانی افغان، تحصیل دسوہہ، ضلع ہوشیارپور، مشرقی پنجاب ہندوستان میں پیدا ہوا۔ ہمارے ابا نے اپنے بیٹے کی پیدائش والے دن کا حال بڑی تفصیل سے لکھا ہے میں صرف چند سطریں نقل کر رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔ ابا جی لکھتے ہیں ’’واہ سبحان اللہ! کیا عید تھی، کیا خوشی و مسرت کا دن تھا کہ جب دنیائے اسلام میں عید منائی جا رہی تھی، ماہ صیام رخصت ہو چکا تھا، مسلمانان عالم عید کی خوشیوں میں جلوس نکال رہے تھے، نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت بلند کر رہے تھے، ہر سو ذکر خدا ورد زبان تھا، خوش گلو نعت خواں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور نذر گزار رہے تھے۔ ایسی ہی ایک سہانی صبح تھی کہ جب حبیب جالبؔ پیدا ہوا۔ یہ نوید صبح بن کر دنیا میں آنے والا، یہ اجالوں کا متوالہ، یہ اندھیروں کا دشمن، تاریکیوں سے متنفر، اس کی پیدائش صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوئی کہ جب رات کی سیاہیوں کا سینہ چیرتے ہوئے انوار تجلیات کا سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ میرا شیر دل بیٹا حبیب احمد (جالبؔ) بھی طلوع ہوا، کبھی نہ غروب ہونے کے لیے۔‘‘
بھائی حبیب جالبؔ نے پرائمری تعلیم گاؤں میانی افغاناں میں حاصل کی۔ ساتھ ساتھ مولوی غلام رسول عالم پوری (مصنف یوسف زلیخا) کے شاگرد عیسیٰ مہر سے قرآن شریف پڑھا۔ 1941 میں دہلی کے اینگلو عربک ہائی اسکول موری گیٹ میں داخل ہوئے۔ 1942میں پہلا شعر کہا۔ واقعہ یوں ہے کہ جماعت ہفتم کے امتحانی پرچے میں ’’وقت سحر‘‘ کا جملہ بنانے کو کہا گیا تھا جملہ تو نہ بنا شعر ہو گیا۔
وعدہ کیا تھا آئیں گے اس شب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے ’’وقت سحر‘‘ ہوا
زندگی کا دوسرا شعر جماعت نہم میں ہوا۔ اسکول کے سامنے مسجد تھی، جہاں اساتذہ اور طلبا مل کر نماز ظہر ادا کرتے تھے بعد نماز دعا ہوتی تھی تو شعر ہو گیا۔
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
دہلی میں بڑے بھائی مشتاق مبارک جو محکمہ اطلاعات و مطبوعات حکومت ہند میں ملازم تھے ان کے محکمے سے سرکاری رسالہ ’’آج کل‘‘ نکلتا تھا جس کے نگران اعلیٰ حضرت جوشؔ ملیح آبادی ہوتے تھے۔ اس رسالے کے ادارتی بورڈ کے معاونین میں مشتاق مبارک کا نام بھی شامل تھا اپنے ان ہی بڑے بھائی کے ساتھ دہلی کے مشاعروں میں بطور سامع شرکت کی۔ حضرت سائلؔ، حضرت بے خود کو سنا۔ بقول جالبؔ ’’جنھوں نے غالبؔ و داغؔ کو سن رکھا تھا ان کے علاوہ جرأتؔ و جگرؔ کو بھی سنا‘‘۔ قیام پاکستان پر گھر والوں کے ساتھ کراچی آ گئے اور گورنمنٹ بوائز اسکول جیکب لائنز میں دسویں جماعت میں داخلہ لے لیا۔ 1948-49 میں میٹرک کا امتحان دینے کے لیے پنجاب جانا پڑتا تھا۔ بھائی جالبؔ کو بھی ابا اماں نے میٹرک کا امتحان دینے لاہور بھیج دیا۔ وہاں سارے پرچے دے دیے، بس ایک انگریزی کا پرچہ رہتا تھا کہ کسی چائے خانے میں شاعر حرماںؔ خیرآبادی مل گئے۔ انھیں اپنے شعر سنائے جس پر حرماںؔ صاحب نے کہا ’’تم شاعر ہو، تمہارا میٹرک سے کیا تعلق‘‘ اور پھر انھیں لائل پور لے گئے جہاں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں انڈ و پاک مشاعرہ ہو رہا تھا۔ جگرؔ صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور یوں حبیب جالبؔ نان میٹرک ہی رہ گئے۔کراچی میں عملی زندگی کا آغاز کیا، بندرگاہ پر مزدوری کی، ٹرکوں پر سامان لادا، اتارا، بطور پروف ریڈر جنگ، ڈان، امروز میں کام کیا۔ شہر شہر نگر نگر چلتے رہے۔
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں‘ بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی
حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک کے کارکن کی حیثیت سے 1954 کراچی میں پہلی بار گرفتار ہوئے۔ 1956 میں جالبؔ کی شاعری ہندوستان پہنچ گئی۔ پنڈت نہرو وزیر اعظم ہندوستان کی صدارت میں لال قلعہ دہلی میں مشاعرہ پڑھا۔ ہجرت کے حوالے سے غزل پڑھی تو پنڈت جی نے گلے لگا لیا۔ 1957 میں پہلی کتاب ’’برگ آوارہ‘‘ مکتبہ کارواں لاہور نے شایع کی۔ 1966میں دوسری کتاب سر مقتل مکتبہ کارواں لاہور نے شایع کی۔ حنیف رامے نے دونوں کتابوں کے سرورق بنائے تھے۔ جنرل ایوب نے سر مقتل ضبط کی، پبلشر چوہدری عبدالحمید گرفتار ہوئے، پریس سیل ہوا ، اور جالبؔ پر بھی مقدمہ بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ اقتدار میں کتاب ’’ذکر بہتے خون کا‘‘ ضبط ہوئی۔ جنرل ضیا نے کتاب ’’گنبد بے در‘‘ ضبط کی۔گرفتاریاں، جیلیں، تھانے، کلام ضبط۔ مگر حبیب جالبؔ لاکھوں کا محبوب شاعر بن کے رہا۔ آج 21 سال بعد بھی جالبؔ اور اس کا کلام پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ زندگی میں تو سوائے بی بی بے نظیر بھٹو کے کسی حکمران کی جرأت نہ ہو سکی کہ جالبؔ کے لیے کسی اعزاز کا اعلان کرتا۔ بی بی بے نظیر بھٹو نے 1989 میں جالبؔ کو ’’جمہوریت ایوارڈ‘‘ دیا جسے انھوں نے قبول کیا۔ مگر لہجہ نہیں بدلا اور بے نظیر بھٹو کے دور کے لیے کہا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
بعد از مرگ 1994 میں صدر فاروق لغاری نے ہلال امتیاز دیا۔ 2012 میں صدر آصف زرداری نے سب سے بڑا سول ایوارڈ نشان امتیاز دیا۔ 2013 میں بنگلہ دیش حکومت نے بنگال پر فوج کشی پر آواز بلند کرنے کے اعتراف میں اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا گیا۔
حبیب جالبؔ نے کبھی کسی حکمران سے تعلق نہیں جوڑا۔ حکمرانوں سے وہ کہتے تھے:
0 Comments