گزشتہ 30 برس سے خالد عباس الاسدی نامی
ایک میڈیکل ڈاکٹر اور عاشق رسول نعت گو شاعر مدینہ منورہ کی پر نور فضاؤں
میں نہ صرف مکین ہے بلکہ روح و بدن کی صحت اور پاکیزگی کے ساتھ اس طرح
رشتہ آرا ہے کہ اب اس کی شخصیت کسی اضافی لاحقے یا سابقے کی محتاج نہیں
رہی۔ خالد عباس سے میری پہلی ملاقات 1989ء میں اس وقت ہوئی جب مجھے پہلی
بار عمرے کی سعادت حاصل ہوئی تب سے اب تک آٹھ بار عمرے اور حج کی وساطت سے
حاضری کا موقع ملا اور ہر سفر کے دوران خالد عباس الاسدی سے بھی ملاقات
رہی کہ مدینہ منورہ میں ان کے بازو احباب تو کیا اجنبیوں کے استقبال کے لیے
بھی ہمیشہ کشادہ رہتے ہیں، وہ خوش وضع بھی ہیں خوش طبع بھی اور خوش لباس
بھی، اس پر رب کریم نے انھیں نعت کی توفیق کے ساتھ ساتھ اچھی اور میٹھی
آواز بھی ارزانی کی ہے مدینہ منورہ میں طویل قیام اور مسجد نبوی کی تعمیر
نو کے پراجیکٹ میں بطور ڈاکٹر شرکت کی وجہ سے انھیں اس شہر اور بالخصوص
مسجد نبوی کی تعمیر و تاریخ کا ماہر اور ایک چشم دید گواہ بھی کہا جا سکتا
ہے جس کے حوالے سے ان کی ایک باقاعدہ تصنیف بھی موجود ہے۔ یہ کتاب ’’اسلامی
ثقافت کا دارالخلافہ۔ مدینہ منورہ‘‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بہت
منفرد انداز کی کتاب ہے کہ اس میں کیمرے اور شاعر دونوں کی آنکھ سے دیکھے
ہوئے ایک ہی منظر کو ایک ساتھ محفوظ کر دیا گیا ہے لیکن اس پر بات کرنے سے
پہلے میں اس کتاب کے پیش لفظ میں درج ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کی تحریر کا
ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک اس کتاب کا پس منظر بھی ہے
اور پیش منظر بھی۔
’’مدینہ منورہ ملت
اسلامیہ کا دل ہے اس باغ رحمت کے آفاقی پیڑوں کی ایمان افروز شاخوں پر
اسلامی ثقافت کے دلکش پھول کھلے جن کی خوشبو سے ’’لا الہ‘‘ کے ترانے سے
دھڑکنے والا ہر دل سرشار ہے۔ عہد رسالت کا دارالخلافہ آج کی مسجد نبوی کی
شکل میں جلوہ گر ہے اسلامی معاشرے کی ابتدائی پرورش و پرداخت اسی شہر اقدس
میں ہوئی، اسلامی ثقافت کا چہرہ اسی ایمان پرور پاکیزہ ماحول کی کرنوں سے
با وضو ہوا، اسی شہر پاک کی حدود میں مسجد نبوی کا وجود اسلامی ثقافت کے
نمو کا منبع و مرجع تھا، اس ایوان ثقافت کی محراب سے ملنے والی بشارتوں نے
سسکتی ہوئی انسانیت کے لبوں پر تبسم کی روشنی بکھیری ورنہ صدیوں سے جاری
تمدن یثرب نے تو حرمت انسان کا اعزاز اور عظمت آدم کا امتیاز چھین لیا تھا
اور غم و آلام کے موسم آدمیت کا مقدر بن گئے تھے… یہ تلوار نہیں کردار
کی ثقافت ہے‘ یہ انتقام نہیں عفوو در گزر کا اہتمام ہے یہ پتھروں کی بارش
میں بھی پھولوں بھری دعاؤں کا موسم ہے یہ حوصلوں کی ایسی کشادہ زمین ہے جس
میں نفرتوں کے صحرا دم توڑ دیتے ہیں۔‘‘ اقتباس تدوین کے باوجود قدرے طویل
ہو گیا ہے لیکن اس کا ہر لفظ غور کے قابل ہے کہ مدینہ منورہ صرف ایک شہر
نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب اور تاریخ کا روشن اور زندہ استعارہ بھی ہے۔ خالد
عباس الاسدی نے اس کے مختلف مناظر اور تہذیبی حوالوں کو قطعات کی شکل میں
قلم بند کیا ہے، چار مصرعوں کی اس محدود وسعت میں ان آسمان گیر اور کائنات
بکف موضوعات سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا
کہ یہاں کوزے میں دریا کو بند کرنے والی تشبیہہ بھی زیادہ دور تک ساتھ نہیں
دیتی، سب سے پہلا قطعہ جو مہر نبوت کے عکس گیر صفحے پر ’’دنیا کی روشن
ترین شخصیت کے نام‘‘ کے عنوان سے درج کیا گیا ہے اس عمل کی ایک نمایندہ
مثال ہے۔
ہیں کس قدر عظیم زمانے میں شخصیات
زریں ہے جن کے نام سے تاریخ شش جہات
روشن ترین ان میں محمدؐ کا نام ہے
جو جگمگا رہا ہے سر لوح کائنات
یوں
تو اس کتاب میں شامل بیشتر قطعات اپنے موضوع اور شعری تقاضوں کو کامیابی
سے پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنھیں مثال کے
طور پر درج کرنا ضروری ہے کہ ان میں شاعر کی عقیدت اور شاعرانہ صلاحیت یک
جان ہو گئے ہیں
علم و عرفان کے خزانے اسی مسجد میں ملے
عمر بھر جاگے زمانے اسی مسجد میں ملے
رب کا گھر جن کے لیے اپنے گھروں سے بھی عزیز
ایسے دلدار گھرانے اسی مسجد میں ملے
………………
پھیلا یہیں سے حق و صداقت کا ہے پیام
اسلام کے مزاج نے پایا یہیں دوام
اترا یہیں تھا نور کی نصرت کا قافلہ
سورج سلام لکھتا ہے اس خاکداں کے نام
………………
نفرت میں سلگتی ہوئی بے آب زمیں کو
اک ابر کو ترسی ہوئی بے تاب زمیں کو
آیا تھا شہیدوں کا یہاں قافلہ اک روز
لوٹانے کو کھوئے ہوئے مہتاب زمیں کو
………………
اس شہر نے دیکھا ہے خلافت کا زمانہ
دنیا میں مسلماں کی قیادت کا زمانہ
مہکے اسی تہذیب سے صحراؤں کے ذرے
بدلا اسی بستی نے جہالت کا زمانہ
………………
کیوں نہ مانگوں دعائیں جینے کی
ہے میسر فضا قرینے کی
یوں دعا کو میں مختصر کر لوں
زندگی ہو تو بس مدینے کی
اب آخر میں سلام کا ایک انداز بھی دیکھتے چلیے
ہر دعا اس کے نام کرتے ہیں
تذکرہ صبح و شام کرتے ہیں
محترم اس زمیں نے ہم کو کیا
اس زمیں کو سلام کرتے ہیں
اس
قطعے کے تیسرے مصرعے یعنی ’’محترم اس زمیں نے ہم کو کیا‘‘ میں ڈاکٹر خالد
عباس الاسدی نے اپنی ذات کے ساتھ پوری ملت اسلامیہ کو شامل کر کے مدینہ
منورہ کو جس طرح اہل اسلام کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کے لیے ایک رحمت کا
استعارہ بنا کر پیش کیا ہے دراصل یہی وہ پیغام ہے جو مسلمانوں کی طرف سے
دیگر ادیان عالم کے ماننے والوں کو جانا چاہیے کہ رب العالمین کا یہی وہ
فرمان ہے جسے پہنچانے کے لیے مدینہ منورہ کی زمین کا انتخاب ہوا اور رحمت
العالمین حضرت محمدؐ کی ذات گرامی کو اس عالم آب و گل میں بھیجا گیا تھا۔
0 Comments