کئی سال گزرے کئی سال بیتے شب و روز کی گردشوں کا تسلسل دل و جاں میں سانسوں کی پرتیں الٹتے ہوۓ زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے ..!...
چٹختے ہوۓ خواب آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں مگر میں ہر اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کے اب تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں سفر زندگی ہے سفر آگہی ہے سفر آبلہ پائی کی داستاں ہے سفر عمر بھر کی سلگتی ہوئی خواہشوں کا دھواں ہے
کئی سال گزرے کئی سال بیتے مسلسل سفر کے پیچ و خم میں سانس لیتی ہوئی زندگی تھک گئی ہے کہ جذبوں کی گیلی زمینوں میں بوۓ ہوۓ روز و شب کی ہر فصل پک اب گئی ہے
گزرتا ہوا سال بھی آخری ہچکیاں لے رہا ہے میرے پیش و پس خوف . دہشت . اجل ، آگ ، بارود کی موج آبادیاں نوچ کر اپنے جبڑوں میں جکڑی ہوئی زندگی کو درندوں کی صورت نگلنے کی مشقوں میں مصروف تر ہے ہر اک راستہ ، موت کی رہگزر ہے
گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا مگر سال کے آخری دن نہایت کٹھن ہیں ہر اک سمت لاشوں کے انبار زخمی جنازوں کی لمبی قطاریں کہاں تک ؟ کوئی دیکھہ پائے ؟ ہواؤں میں بارود کی باس خود امن کی نوحہ خواں ہے کوئی چارہ گر. عصر حاضر کا کوئی مسیحا کہاں ہے ؟
میرے ملنے والو ..! نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھہ آئے تو ملنا کہ جاتے ہوۓ سال کی ساعتوں میں یہ دل بجھتا ہے مسکراتا نہیں
0 Comments