Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ہماری قومی زبان اردو

دنیا میں قومیں جن چیزوں سے پہچانی جاتی ہیں ان میں سے ایک قومی زبان ہے۔ اسے صحیح مقام دیے بغیر قومی یگانگت پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اس کے بغیر قوم کے دلوں سے احساسِ کمتری دور نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خود اعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ قومی زبان کے بغیر نہ تو ملک و قوم ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی متحد و مستحکم رہ سکتے ہیں۔ قومی زبان کسی بھی قوم کی امنگوں کی آئینہ دار اور ہر میدان میں اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ ہر شخص قومی زبان کے ذریعے اپنی آواز بیک وقت پوری قوم تک پہنچا سکتا ہے۔

جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اردو زبان کی تخلیق کے بارے میں ماہرینِ لسانیات نے مختلف آرا پیش کی ہے۔ بیشتر ماہرین کہتے ہیں کہ لفظ اردو ترکی زبان سے نکلا ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ اسے لشکری زبان بھی کہا گیا ہے۔ ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو ’’اردو‘‘ یا ’’اوردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال شاہ جہان کے دور سے شروع ہوا جب دہلی کے پاس چھاونی کو اردو معلیٰ کے نام سے منسوب کیا گیا اور اسی طرح اس علاقے میں بولی جانے والی زبان بھی اردوئے معلیٰ کہلائی جانے لگی ، جو کہ بعد میں صرف اردو کہلائی جانے لگی۔ یہی زبان آج وطنِ عزیز میں بولی جاتی ہے۔ 

اردو زبان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا بھی گیا، جن میں ہندی، دہلوی، ریختہ، دکنی اور ہندستانی قابلِ ذکر ہیں۔ اس زبان کو ایک مخصوص گروہ کی جانب سے درباری زبان کے لقب سے بھی پکارا گیا۔ اس کے نفاذ کو ہمیشہ التوا میں ڈالا گیا۔ لیکن در حقیقت اردو وہ زبان ہے جس کا تعلق ہمیشہ سے عوام سے رہا ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اردو زبان نے دوسری زبانوں اور علوم کو اپنے اندر سمونے میں تشنگی دکھائی۔ یہ اپنی وسیع القلبی کی بدولت مختلف زبانوں اور الفاظ کو اپنے اندر سمیٹ رہی ہے۔ 

یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرآن پاک میں جن الفاظ کا استعمال ہوا ہے، ان میں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار ایسے الفاظ ہیں جو اردو زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے پانچ سو الفاظ ایسے ہیں جو پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اردو کم مایہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ زبان ہے جس نے غالب، میر اور اقبالؒ جیسے مایہ ناز اور قد آور شاعر پیدا کیے۔ وہ زبان جس نے سر سید احمد خان، مولانا محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزاد اور شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی جیسے نثر نگار پیدا کیے۔ 

اردو زبان کی ترقی و ترجیح میں صوفیائے کرامؒ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بدولت اس زبان نے ہندوستان بھر میں عروج حاصل کیا۔ تبلیغ کے لیے آنے والے صوفیاکرامؒ غیر ملکی ہونے کے باوجود مقامی زبان میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ان کا عمدہ اخلاق و کردار دیکھ کر لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اسی زبان کی بدولت ہندوستان کی ایک کثیر آبادی مشرف بہ اسلام ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو کو بطور قومی زبان لاگو کیا گیا۔ 1956ء کے آئین میں اردو اور بنگالی دونوں قومی زبانیں قرار پائیں۔ 1962ء کے آئین میں بھی اردو کو قومی زبان تسلیم کیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے تحت بھی سرکاری اور قومی زبان اردو ہی کو تسلیم کیا گیا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ دو رنگی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ 

ملک میں دو قسم کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انگریزی تعلیم حاکم پیدا کرتی ہے اور اردو محکوم۔ اس سے نقصان یہ ہو رہا ہے کہ معاشرہ اپنی بہتر صلاحیتوں سے محروم ہو کر اسی راستے پر چل رہا ہے جس پر انگریز ڈال گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ماحول میں پرورش پانے والے افراد قطعاً اس حق میں نہیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ تعلیم و تدریس کا وسیلہ بنایا جائے۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی مثال دیکھ لیجئے وہاں وہی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج ہوتی ہے جسے وہاں کے عوام کی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہو۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کو فروغ دینا حکومت سمیت ہر پاکستانی کا قومی فریضہ ہے کیوں کہ اردو دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے۔

زینب آغا


 

Post a Comment

1 Comments