کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ جب سے انسان اس زمین پر آیا، اپنے ساتھ ایک کہانی بھی لایا مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک کہانی پہلے سے موجود تھی، انسان آیا تو اس کا ایک کردار بن گیا۔ ایک کردار نہیں بلکہ جتنے انسان اتنے ہی کردار، کہ ہر کردار اس کائنات کو وہاں سے دیکھ کر معنویت اخذ کر رہا تھا جہاں وہ خود تھا یا جس صورت حال میں اسے بسر کرنا پڑ رہی تھی۔ کہانی کہنے کی روایت قدیم سہی مگر اس کے فنی طور پر افسانہ بن جانے کی روایت اتنی قدیم نہیں ہے۔ بجا کہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں جرمنی، فرانس، امریکا، انگلستان اور روس میں ناول کے ساتھ ساتھ شارٹ سٹوری کا چلن ہونے لگا تھا مگر اردو میں افسانہ نگاری کا فن قدرے تاخیر سے آیا۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہاں افسانہ تو موجود تھا مگر افسانہ نگاری کا فن ان تقاضوں کی جانب متوجہ نہ ہو پایا تھا۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہاں افسانہ، مغرب میں اس صنف کے بطور فن آنے سے پہلے موجودہ تھا، تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے کہ جسے ہم آج افسانہ مانتے ہیں اس کے ابتدائی نقوش زمانہ قدیم میں داستان اور قصہ کہانی کی روایت میں بھی موجود تھے۔ اس سارے علاقے میں کہ جہاں اب اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس میں پہلے سے کئی زبانیں موجود تھیں اور اتنی ارتقا یافتہ تھیں کہ ان میں قصے کہانی کی روایت تحریری صورت میں مستحکم ہو چکی تھی۔ ویدی ادب میں لگ بھگ سو کے قریب کہانیاں مل جاتی ہیں جو بطور تمثیل بیان ہوئی ہیں۔ ویدوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سن عیسوی کے آغاز سے ایک ہزار سال پہلے سے یہاں موجود رہی ہیں۔
اپنشد، جاتک، پنج تنتر اور پرہت کتھا کی قدامت تسلیم شدہ ہے اور یہ ادب اپنے اندر کہانی کی ایک خاص روایت رکھتا ہے۔ جین کتھا کوش، نندی سومتر، دس کمار چرتر، داسودتا، ہرش چرتر، کامبری، ہتوت دیش، کتھا سرت ساگر سے بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیس تک چلے آئیں، ہر کہیں کہانی کا چہرہ آپ کو لطف دے جائے گا۔ کہانی کی اسی روایت میں اس قصے کی روایت کو بھی شامل کر لیجیے جو ایران اور ترکی سے ہمارے ہاں آ رہی تھی۔ کہتے ہیں 550 میں ایران سے حکیم برزویہ ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ کرتک اور دمنک کا قصہ بھی لے کر آئے تھے۔ یہ وہی قصہ ہے جو بعد میں کلیلہ و دمنہ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کہانی کا اپنا وطن کوئی نہیں ہوتا، یہ نگر نگر گھومتی ہے اور جہاں پہنچتی ہے، وہیں کی ہو جاتی ہے، تو ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا تھا۔ یہاں کی کہانیاں باہر جا رہیں تھیں اوروہاں کی ادھر آتی تھیں۔
مگر لطف یہ کہ جب یہ کہانیاں ایک زبان سے دوسری میں منتقل ہونے کے بعد واپس اپنی زبان اور علاقے میں پہنچتی تھیں تو اتنی بدل چکی ہوتیں کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔ اسی باب کی ایک مثال ’’الف لیلہ‘‘ کی کہانیاں ہیں، جو فارسی سے عربی میں پہنچیں مگر جب واپس فارسی میں منتقل ہوئیں تو ان میں بہت سی اور کہانیاں شامل ہو چکی تھیں۔ یاد رہے کہ دنیا کی ساری زبانوں میں کہانی پہلے نظم کی صورت میں آئی اور جوں جوں انسان کا شعور ترقی کرتا گیا یہ روایت بھی نثر میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ اردو میں بھی قصہ کہانی کا آغاز مثنویوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ قصے اکثر دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل ہو رہے تھے اور طبع زاد کم کم ہی ہوتے تھے۔
غواصی کی مشہور مثنوی ’’سیف الملوک‘‘ کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے کہ یہ الف لیلہ کی ایک داستان کی منظوم شکل ہے جب کہ غواصی کی اور مثنوی ’’طوطی نامہ‘‘، بھی فارسی کے طوطی نامہ سے ماخوذ تھی۔ ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘ فارسی سے ترجمہ ہو کر منظوم ہوئی۔ نصرتی کی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ میں بیان ہونے والا قصہ پہلے سے فارسی اور ہندی میں موجود تھا۔ خیر ان قصوں میں کئی ایسے ٹکڑے مل جاتے ہیں جن میں لکھنے والوں نے اپنے تخیل سے کام لیا اور یہی وہ ٹکڑے ہیں جو رفتہ رفتہ طبع زاد کہانی لکھنے کا جواز ہوئے۔
ملا وجہی کی سب رس کے آتے آتے یہ روایت نثر میں منتقل ہو گئی تھی۔ میر عطا حسین خان تحسین نے جب امیر خسرو کی فارسی تصنیف "قصہ چہار درویش" کو اردو میں ڈھالا تو نثر کی یہ روایت بھی مستحکم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کے استحکام میں کلکتہ میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کہانی کی اس روایت میں اس پرتگالی جہاز کی کہانی کو بھی شامل کر لیجئے جو مالابار کے ساحل پر لگا تھا اور جس میں پرنٹنگ پریس کی مشینیں اور دوسرا سامان لدا ہوا تھا۔ 1803ء تک قائم ہونے والے کئی چھاپہ خانوں سمیت فورٹ ولیم کالج کے اس پرنٹنگ پریس تک سب نے کہانی کی روایت پر اثر ڈالا تھا۔
اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ ہر علاقے کے ادب کی ایک اپنی روایت بھی ہوتی ہے، جو اسے دوسری زبانوں اور ملکوں کے ادب سے الگ شناخت عطا کرتی ہے۔ ادب اور ثقاقت میں دوسری تہذیبوں سے لین دین معمول کی بات سہی مگر اس لین دین کے بعد مقامی آہنگ میں ڈھلنے کا مرحلہ اسی روایت کے زیراثر طے پاتا ہے جو زمین میں جڑ پکڑے پہلے سے موجود ہوتی ہے۔
0 Comments