دن گزارا ہے سزا کی صورت
دن گزارا ہے سزا کی صورت
رات آئی شبِ یلدا کی طرح
صحن کی آگ میں جلتے ہوئے شعلوں کی تپش
منجمد ہوتے ہوئے خون میں در آئی ہے
یادیں یخ بستہ ہواؤں کی طرح آتی ہیں
آتشِ رفتہ و آئندہ میں رخشاں چہرے
برف پاروں کی طرح
دل کے آئینے میں لو دیتے ہیں، بجھ جاتے ہیں
پسِ دیوار ہے خورشیدِ تمنا کا قیام
ختم یہ سلسلۂ رقصِ شرر ہونا ہے
شبِ یلدا کا مقدر ہے
سحر ہونا ہے
افتخار عارف
0 Comments