Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

منیر نیازی اور پروین شاکر

منیر نیازی نے گزشتہ صدی کی پانچویں اور پروین شاکر نے ساتویں دہائی میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور دونوں نے ایسے منفرد اور دیرپا نقوش چھوڑے کہ اب ان کے نمایاں ذکر کے بغیر پاکستانی شعر و ادب کی تاریخ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خوش قسمتی سے مجھے ان دونوں غیر معمولی انسانوں کے ساتھ نہ صرف بہت سا وقت گزارنے اور سفر کرنے کا موقع ملا ہے بلکہ ذاتی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اُن کی شخصیات کو بھی بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ منیر نیازی رہے تو بیسویں صدی میں مگر اُن کا مزاج ، طبیعت اور شعرو ادب سے وابستگی کلاسیکی شعرا جیسی تھی جو ہمہ وقتی شاعر ہوا کرتے تھے اور عام طور پر شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ وہ شاعری کرتے ہی نہیں بلکہ اسی میں live بھی کرتے تھے یعنی یہی اُن کا passion بھی تھا اور ایک طرح سے profession بھی کہ انھوں نے عمر بھر اول تو کوئی کام لگ کر کیا ہی نہیں اور جو جزوی کام، ملازمتیں یا کاروبار کیے وہ بھی کسی نہ کسی طرح اسی شعبے سے متعلق تھے ان کی شاعری کی طرح اُن کی شخصیت بھی بیک وقت خوشنما، دلکش، حیران کن اور پراسرار تھی جب وہ اپنی گہری آواز میں اپنے مخصوص انداز میں سر کو جنبش دیتے ہوئے شعر پڑھتے تھے تو سارا مشاعرہ جیسے اُن کے گرد گھومنے لگتا تھا ان کی نظموں کے مخصوص استعارے، زبان جادوگردی اور اختصار ایک جادو کی طرح پورے ماحول پر چھا جاتے تھے ان کی مشہورِ زمانہ نظم ’’محبت اب نہیں ہو گی‘‘ میری اس بات کی روشن دلیل کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

ستارے جو دمکتے ہیں کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمالِ ابر و باراں میں

یہ ناآباد رستوں میں دل ِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ اُن کی یاد میں ہو گی

ایک اور مختصر نظم ’’کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘‘ کچھ اس طرح جادو جگاتی ہے کہ۔
کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن سُنی رہنے دو

سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا

سب باتیں اُس کی سُن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا

اک اوجھل بے کلی رہنے دو
ایک رنگیں اَن بنی دنیا پر

اک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو

اور اب چند غزل کے شعر بھی 
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
 
چمن میں رنگِ بہار اُترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اُترا تو میں نے دیکھا

گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اُترا تو میں نے دیکھا

اب جہاں تک پروین شاکر کا تعلق ہے اس کی نظمیں بھی اپنی انفرادیت، موضوعات اور ٹریٹ منٹ کی وجہ سے بہت اہمیت کی حاملِ ہیں مگر چونکہ انھیں زیادہ تر غزل کی شاعرہ کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے اس لیے میں اُس کے ذکر اور یاد کو اس کی غزلیہ شاعری تک ہی محدد رکھتا ہوں 42 سال کی مختصر زندگی کے باوجود جب ہم اُس کے کلیات ’’ماہِ کمال‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اتنے کم عرصے میں معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ایسا باکمال مجموعہ کیسے ترتیب دے دیا۔ میری ذاتی رائے میں جس مہذب اور معتدل انداز میں اس نے تانیثیت کے موضوع پر لکھا وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے اور آج بھی اُردو خواتین کی شاعری کے محیط میں وہ ایک سنگِ میل کی طرح دیکھی جاتی ہے آج کے دور میں جن شعرا کے اشعار بہت کثرت سے دہرائے جاتے ہیں اُن میں یقینا پروین کا شمار پہلی صف میں ہوتا ہے ا س وقت جو چند شعر مجھے فوری طور پر یاد آرہے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

چہرۂ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت کے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
 
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
 
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھی ہوا سے مری دشمنی رہی
 
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
 
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون!
 
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آجاتا
 
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
 
پابہ گِل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست پستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون
 
بخت سے کوئی شکائت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
 
چُوم گر پھول کو آہستہ سے
معجزہ بادِ صبا کرتی ہے
 
ابر برسے تو عنایت اُس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے

امجد اسلام امجد 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments