Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر صفدر محمود : ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

 
ڈاکٹر صفدر محمود لگ بھگ پون صدی گزار کر اِس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ انہیں کس طرح یاد کیا جائے، وہ الفاظ کہاں سے لائے جائیں، جو ان کی شخصیت کا احاطہ کر سکیں یا اُن کی تحقیق و جستجو کو خراجِ عقیدت پیش کر سکیں۔ وہ ایک بڑے سرکاری افسر تھے، مؤرخ تھے‘ محقق تھے، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ انکی بیس سے زائد کتابیں شائع ہو کر قبولِ عام حاصل کر چکی ہیں۔ کالم نگار کے طور پر انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ بین الاقوامی اداروں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی، غیرملکی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے، پاکستان اور تحریک پاکستان کی روح سے اپنوں اور غیروں کو متعارف کرایا۔ ان کی کئی حیثیتیں تھیں، اور وہ ہر حیثیت میں ممتاز تھے، لیکن جس بات نے انہیں ممتار تر، بلکہ ممتاز ترین بنا دیا تھا وہ پاکستان اور بانیٔ پاکستان سے انکی محبت تھی، لاریب وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے سربکف محافظ تھے۔ 

جب بھی کوئی شخص ان پر حملہ آور ہوتا وہ جھپٹتے، اور اسے چاروں شانے چت گرا دیتے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلانے والے ان کے افکار و کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کرنیوالے آج بھی موجود ہیں، دانشور کہلاتے اور اپنے آپ کو محقق بتلاتے ہیں لیکن ان کو تحقیق کی ت تک چھو کر نہیں گزری۔ اور تو اور، قراردادِ لاہور کو سر ظفراللہ خان سے منسوب کرنے کی جسارت کرنیوالے بھی ایک زمانے میں دندنانے لگے تھے۔ چودھری صاحب کو اس بات کا کریڈٹ دیا جارہا تھا، جس کا انہوں نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا تھا۔ قائداعظمؒ کے منہ میں بھی ایسے الفاظ ڈالے جا رہے تھے، اور ڈالے جا رہے ہیں جو انہوں نے کبھی ادا ہی نہیں کیے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایسے ہر موقع پر سینہ سپر ہو جاتے۔ تاریخی حقائق کو منظرعام پر لاتے اور جھوٹوں کو گھر تک پہنچا کر آتے۔ برادر عزیز منیر احمد منیر کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ شرف عطا کیا ہے۔ وہ صحافت سے تحقیق کی طرف گئے اور اپنے آپ کو قائداعظمؒ کے ذکروفکر کیلئے مختص کر دیا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا یہی ہے، اور اس حوالے سے وہ بھی ہمارے سرکا تاج ہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود کو بھی ان کی لگن اور جستجو نے مؤرخ تحریک پاکستان بنا دیا تھا۔ جب بھی کوئی الجھن درپیش ہوتی، ان سے رابطہ کیا جاتا۔ وہ اسے چٹکیاں بجاتے رفع کر دیتے، اگر شرح صدر نہ ہو پاتی تو مہلت طلب کرتے، کان میں اتر کر گوہر مقصود تلاش کر لاتے۔ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے، اور وہاں پڑھایا بھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر منیرالدین چغتائی کے زیر نگرانی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج میں انہیں پروفیسر منور مرزا کی صحبت عطا ہوئی۔ ان کے سائے میں بڑھے، پھلے اور پھولے۔ پروفیسر محمد منور مرزا پاکستان کی نظریاتی اساس کو مضبوط کرنے میں لگے رہے۔ اپنے شاگردوں کے دِل و دماغ میں پاکستان کی محبت بھر دینا ان کا مقصدِ زندگی تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے پروفیسر منور مرزا سے استفادے کا حق ادا کیا، اور ان کی تصویر بن گئے۔ ان کے خدوخال اپنے تھے، اسلوب اپنا تھا، وہ تقریر کے نہیں تحریر کے دھنی تھے، لیکن لہو میں حرارت استاد کی سی تھی۔ 

گورنمنٹ کالج ہی میں میاں نواز شریف کو ڈاکٹر صاحب کی شاگردی بھی نصیب ہوئی اور ان کی وزارت کے اولین ایام نے ڈاکٹر صاحب کی انگلی بھی پکڑے رکھی۔ حاجی محمد اکرم، چودھری سردار محمد جیسے جیّد افسروں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر صاحب نے وہ مثلث بنائی جسے نوجوان وزیراعلیٰ پنجاب کا حصار بننا تھا۔ ڈاکٹر صاحب مقابلے کے امتحان کے ذریعے سرکاری افسر بنے تھے۔ انکم ٹیکس کے محکمے میں ایک عرصہ گزارا، انٹیلی جنس بیورو میں بھی ان کا تقرر ہوا، فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین مقرر ہوئے، صوبائی سیکرٹری رہے، وفاق میں پہنچے تو وزیراعظم ہائوس کو رونق بخشی۔ مختلف وزارتوں کے سیکرٹری رہے، او ایس ڈی بھی بنائے گئے لیکن تاریخ اور تحقیق سے ناتہ نہیں ٹوٹنے دیا۔ ان کی کتابیں چھپتی رہیں، اور ان کے حلقۂ عقیدت میں اضافہ ہوتا رہا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی وہ قلمی نام سے کالم لکھتے رہتے تھے، روزمرہ سیاست سے ان کی دلچسپی کم نہیں تھی، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد تو یہ سلسلہ باقاعدہ ہو گیا۔ ان پر روحانیت کا غلبہ بھی ہوتا چلا گیا۔ بابوں کی تلاش کرتے کرتے وہ خود بھی بابے بن گئے تھے۔ 

تاریخ و تحقیق کا دامن انہوں نے آخر دم تک پکڑے رکھا۔ اسی بات نے ان کے کالموں کی تازگی برقرار رکھی۔ ایک سال پہلے ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ''سچ تو یہ ہے‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا تو اس نے دھوم مچا دی۔ علامہ عبدالستار عاصم نے اسے اس طرح چھاپا، اور پھیلایا کہ ایڈیشن پر ایڈیشن شائع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر وہ کچھ اور نہ لکھتے تو یہی مجموعہ انہیں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ اس میں درج کالم کس پس منظر میں لکھے گئے، اسے انہی کے الفاظ میں سن لیجیے: ''یہ کوئی سات آٹھ برس قبل کی بات ہے کہ ایک روز مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلعی مقام سے بی اے کی ایک طالبہ کا فون آیا۔ اس نے میری آواز سنتے ہی پوچھا: کیا آپ نے فلاں صاحب کا کالم پڑھا ہے، میرا جواب 'نہیں‘ میں سن کر وہ رونے لگی۔ اس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس دانشور نے قائداعظمؒ کے بارے میں بڑی تکلیف دہ اور غلط باتیں لکھی ہیں، اور اسکے اندازِ تحریر سے گستاخی یا بدتمیزی کی بدبو آتی ہے.

مَیں نے وہ کالم پڑھا، پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ محترم لکھاری نے تحقیق کی ہے نہ ہی بنیادی تاریخی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں، بس جوشِ تحریر میں قائداعظم پر الزامات لگانے کا شوق پورا کر لیا ہے؛ چنانچہ مَیں نے ان کے کالم کا تاریخی مواد کے حوالے دے کر جواب دے دیا۔ انہوں نے چپ سادھ لی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کم و بیش ایک سال بیمار رہے۔ انکے بیٹے امریکہ میں مقیم ہیں، وہ انہیں وہاں لے گئے، لیکن صحت بحال نہ ہو سکی۔ پاکستان واپس آئے تو دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے۔ چند ہفتے اسی کیفیت میں گزار کر وہاں جا بسے جہاں بالآخر ہم سب کو جانا ہے۔ وہ آہوئے بے تاب تھے، ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتے، لکھتے یا پڑھتے رہتے۔ جلوت سے زیادہ خلوت راس آ گئی تھی، مجلسوں اور مذاکروں سے گریزاں رہتے۔ اخباری انٹرویوز سے بھی خود کو بچائے رکھتے۔ میری شدید خواہش تھی کہ ان کا تفصیلی سوانحی انٹرویو ریکارڈ ہو جائے۔ اس کیلئے عزیزم حامد ولید کو تیار کر لیا تھا۔ انہوں نے برادرم شاہد رشید کے ذریعے وقت بھی لیا، لیکن جس روز یہ کام ہونا تھا، اسی روز ان پر مرض کا حملہ ہوا، اور وہ ہسپتال جا پہنچے، حافظہ متاثر ہوا، قوتِ گویائی بھی۔ ان کی زندگی کی کہانی، ان کی زبانی سننے کی حسرت دِل ہی میں رہ گئی۔

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا/ ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے 

مجیب الرحمٰن شامی  

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments