سقوطِ ڈھاکہ کی خبر سُن کر معروف شاعر نصیر ترابی کی آنکھیں آنسوؤں سے بَھر گئیں اور ایسے ہی انہوں نے ایک غزل تخلیق کی جسے نصیر ترابی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگ اخبار کے سرورق پر نصیر ترابی کی غزل چھپی جو 71 میں ایک نوجوان شاعر کے خیالات تھے۔ سقوط ڈھاکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نصیر ترابی کہتے ہیں کہ ’یہ غزل میں نے سقوط ڈھاکہ پر کہی تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ ایک دن جب دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے سقوطِ ڈھاکہ کی خبر دن کے گیارہ بجے ملی۔ نصیر ترابی کا کہنا تھا کہ مجھے جب یہ خبر ملی تو ایک دم ہی میں ٹپ ٹپ رونے لگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ ہمارے لیے بڑا جذباتی مسئلہ تھا، تو بس اسی وقت میں نے ایک غزل ترتیب دی۔ یہ غزل ناصرف اس وقت مشہور ہوئی بلکہ آج بھی زبان زد عام و خاص ہے۔
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
0 Comments