جلال الدین رومی دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ان کی مثنوی معنوی تصوف کے موضوع پر سب سے اہم مثنوی ہے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال، جلال الدین رومی کو مرشد مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:
رازِ معنی مرشد رومی کشود فکر من بر آستانش در سجود
ترجمہ:۱۔ اصل راز/معنی میرے مرشد رومی نے آشکار کئے ہیں، میری فکر ان کے آستانے پر سجدے کرتی ہے۔ رومی بلخ میں ۶۰۴ ھجری میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ بہاء الدین اس وقت کے بڑے روحانی علماء میں شمار ہوتے تھے اور ھزاروں عقیدت مند درس میں شامل ہوتے تھے۔ یہ خوارزم شاھی دور تھا اور علاؤ الدین خوارزم شاہ اس خطہ کے حکمران تھے۔ اس زمانے میں شیخ بہاء الدین نے بلخ سے رخت سفر باندھا اور سمرقند، بخارا، ایران، شام، عراق اور حجاز مقدس میں فریضہ حج کے بعد بالآخر قونیہ (ترکی) میں آباد ہوئے اور ایک عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
شیخ بہاء الدین دوران مسافرت نیشاپور میں معروف صوفی شاعر شیخ فرید الدین عطار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عطار نے اس بارہ سالہ بچے (رومی) کو دیکھ کر کہا کہ اس بچے کی پیشانی پر بزرگی کے آثار رقم ہیں اور یہ دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ نیز شیخ فرید الدین عطار نے اپنی مثنوی ''اسرار نامہ‘‘ رومی کو ھدیہ کی۔شیخ بہاء الدین کی وفات کے بعد مدرسہ/درس گاہ کا نظام مولانا جلال الدین رومی نے سنبھالا اور درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، جہاں پر ایک روز مدرسہ کے تالاب کے کنارے علم کے موتی بکھیر رہے تھے کہ ایک مرد قلندر شمس تبریزی اچانک نمودار ہوا اور پاس جا کر پوچھنے لگا کہ : این چیست؟ (یہ کیا ہے؟) علوم ظاھری کے طالبان نے جواب دیا، جا بابا جا: این علمی است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ھے جو تم نہیں جانتے) اور پھر اس مخدوب نے عجیب کام کیا اور کتابیں اُٹھا کر تالاب میں پھینک دیں ظاھر بین غُصّے کے عالم میں مست الست قلندر کو سخت سُست کہنے لگے اور کہا کہ یہ کیا کیا اور پھر شمس نے جب تالاب سے دھول اُڑائی اور خشک کتابیں نکال کر پیش کر دیں تو ایک عالم تحیر رومی اور ان کے طالبعلموں پر طاری ہو گیا اور گویا ھوئے:
این چیست؟ (یہ کیا ہے) اور پھر مخدوب گویا ھوا کہ: این علمی است کہ شمانمی دانید (یہ وہ علم ہے جو آپ نہیں جانتے) اور یہی جملۂ رومی کے احوال و شخصیت کو بدل گیا۔ رومی اپنے تمام علم و ہنر کے ساتھ شمس کے دست بستہ مرید اور عاشق ہو گئے اور پکار اُٹھے، ترجمہ: ۱۔ میں تیری خواہش میں رات دن بے قرار ہوں اور تیرے قدموں سے سر نہیں اٹھائوں گا۔ ۲۔ میں نے تو رات دن کو اپنی طرح مجنون کر دیا ہے اور میں نے رات دن کو رات دن کہاں رہنے دیا ہے۔ ۳۔ عاشقوں سے جان و دل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور میں رات دن جان و دل کو نثار کرتا ہوں۔ ۴۔ جب سے تیرے عشق کے نغمے الاپنے شروع کیے ہیں میں کبھی چنگ ہوں اور کبھی تار۔ شمس تبریزیؒ کے فیض نے جلال الدین رومی کو وہ رفعت عطا کی کہ اس کی مثنوی معنوی اور دیوان شمس آسمان ادب پر روشن سورج کی طرح ہمیشہ کے لیے چمک اٹھے اور پیغام اس طرح پھیلا کہ رومی عشق و محبت اور انسانیت اور حریت کا استعارہ بن گیا۔
علامہ اقبال، رومی کی اسی آفاقیت اور شاعرانہ عظمت اور پیغام کے دلدادہ ہیں اور برملا کہتے ہیں:
چو رومی در حرم دادم ازان من ازو آموختم اسرار جان من
بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر روان من
ترجمہ:۱۔ میں نے رومی کی طرح حرم میں اذان دی ہے اور اس سے اسرار جان (دل و روح) کے بھید سیکھے ہیں۔ ۲۔ پرانے زمانے کے فتنوں میں وہ (رومی) اور دور حاضر کے فتنوں میں میں (اقبال) صدائے حق بیان کرتا ہوں۔ رومی کی مثنوی کے چھبیس ہزار اشعار ہیں اور دیوان شمس تقریباً چھیالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی معنوی دراصل تصوف کے اسرار اور انسانی معاشرت پر محیط ایک مقدس صحیفے کی حیثیت رکھتی ہے اور جلال الدین رومی نے بانسری کا استعارہ روح انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جو اپنی اصل سے جدا ہو گئی اور دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، ترجمہ: ۱۔ بانسری کی آواز سنو یہ کیسی کہانی/ حکایت بیان کر رہی ہے۔ یہ تو جدائیوں کی شکایت کر رہی ہے۔ ۲۔ جب سے مجھے جنگل سے کاٹا گیا ہے میری آواز سے (میرے نالوں سے) مرد و زن رو رہے ہیں۔ ۳۔ میں جدائی سے/ فراق سے چھلنی سینہ چاہتی ہوں جس کے سامنے میں عشق کے درد کو بیان کر سکوں۔ اِسی طرح دیوان شمس میں شمس سے دوری اور فراق کا وہ بیان ہے کہ اس ضمن میں کی گئی شاعری میں اس کا مقام بہت ہی بلند اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے۔
دراصل رومی کا زمانہ تاتاری فتنے کے بعد کا زمانہ ہے جس میں انسانی معاشرہ بے عملی کا شکار ہو گیا تھا اور علماء و شعراء نے بھی خانقاہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ اس پر آشوب دور میں رومی نے انسانوں کو عمل کی طرف راغب کیا۔ انسان کو انسانوں کی اشرف اخلاقی اور روحانی اقدار کی طرف بلایا اور وہ بے اعتباری دور کرنے کی کوشش کی جو انسانوں میں ایک دوسرے سے پیدا ہو چکی تھی۔ خود لب کھولے اوردوسروں کو لب کھولنے کی جرأت اور تشویق عطا کی، ترجمہ: ۱۔ لب کھولو کہ بہت ساری شیرینی/مٹھاس کی آرزو ہے اور چہرہ دکھاؤ کہ باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔ ۲۔ میں ان سُست عناصر ساتھیوں سے تنگ آگیا ہوں۔ میں تو شیر خدا (علی ؑ) اور دستان کے رستم کی آرزو کر رھا ہوں۔ ۳۔ کہا گیا کہ جسے ہم تلاش کرتے ہیں وہ ملتا ھی نہیں، میں نے کہا کہ وہ جو تلاش نہیں کیا جا سکتا/جو نہیں ملتا میں تو اسی کا متلاشی ہوں۔ رومی کا یہی پیغام علامہ محمد اقبال تک آیا تو اقبال بھی متحیر ہو گئے اور رومی کو مرشد معنوی مان کر اس طرح گویا ہوئے:
شب دل من مایل فریاد بود خامشی از یاربم آباد بود
آن قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر بشکست و آخر خواب شد
روی خود بنمود پیر حق سرشت کو بہ حرف پہلوی قرآن نوشت
گفت ای دیوانۂ ارباب عشق جرعہ ای گیر از شراب ناب عشق
تا بہ کی چون غنچہ می باشی خاموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش
من کہ مستی ھا ز صہبایش کنم زندگانی از نفس ھایش کنم
ترجمہ:۱۔ رات میرا دل فریاد پہ مایل تھا اور خاموشی میں میرے یارب یا رب کہنے کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ۲۔ میں اس قدر بیتاب ہوا کہ آخر کار تھک کر سو گیا۔ ۳۔ پیر حق سرشت (رومی) نے خواب میں اپنا چہرہ دکھایا ، جنہوں نے پہلوی زبان میں قرآن لکھا ہے۔ ۴۔ کہا کہ اے اربابِ عشق کے دیوانے، میری خالص شراب کا ایک گھونٹ پی لے۔ ۵۔ کب تک غنچے کی طرح خاموش رہو گے، اپنی خوشبو کو پھول کی طرح بکھیر دو۔ ۶۔ میں جو اُس کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، بلکہ میں تو سانس بھی اُس کی سانسوں سے لیتا ہوں۔ انیسویں اور بیسویں صدی اعلیٰ ادبیات کے انعکاس کی صدیاں کہلاتی ہیں۔ ان میں عالمی شخصیات کی ملاقاتیں ہوئیں، سفرنامہ لکھے گئے اور ادبی شاھکاروں کے تراجم ہوئے ، عالمی ادیب ایک دوسرے کے شہ پاروں سے متعارف ہوئے۔ اگرچہ فارسی دان طبقہ تو رومی کی عظمت سے روشناس تھا ہی، تراجم کے ذریعے شناسائی کے نئے درباز ہوئے اور مشرق و مغرب رومی کی فکری جدت کی طرف مایل ہوا اور مثنوی معنوی کی افاقیت پوری دنیا میں گستردہ ہو گئی نیز دنیا کے ادبأ و شعرا نے رومی پہ خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرنا شروع کئے۔
رومی کی مثنوی کی حکایات اور ان کے آخر میں سبق آموز جملے /اشعار ضرب الامثال کی صورت اختیار کر گئے، ترجمہ: ۱۔ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے جیسا مت خیال کرو کیونکہ شیر (جنگل کا) اور شیر (دودھ) لکھے ایک طرح ہی جاتے ہیں۔
کاسۂ چشم حریصان پُر نشد تا صدف قانع نشد پر در نشد
ترجمہ:۱۔ حریص کی آنکھ کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا، جب تک سیپی قناعت نہیں کرتی اُس میں موتی نہیں بنتا۔ رومی کی عظمت کے اعتراف میں لکھے جانے والی چند ذیل کتابوں اور ادیبوں کا ذکر ضروری ہے ۔ ۱۹۹۹ء میں دیپک چوپڑا کی کتاب'' محبت بھرا تحفہ، رومی کی شاعری کے زیر اثر موسیقی‘‘۔ میڈونا، مارٹن شین، ڈیمی مور اور گولڈن ہیون، نے رومی سے شناسائی کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ انیسویں صدی کو رومی کی صدی قرار دے کر اس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ آخر میں ہم مشہور دانشور مائیکل کونستا توفسکی اکتوبر کی تحریر کو رومی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں'' دنیا آج جس بات پر آج زور دے رہی ہے وہی پیغام رومی ۸۰۰ برس قبل دے چکے ہیں‘‘۔ مائیکل کے انگریزی مضمون کی سرخی کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ''رومی دنیا کا مقبول ترین شاعر‘‘ ۔ در حقیقت رومی اسی عنوان کے سزاوار ہیں۔
پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروانِ عشق و مستی را امیر
(مولانا روم روشن ضمیر مرشد ہیں اوروہ کاروانِ عشق و مستی کے امیر ہیں)۔
0 Comments