Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

انسپکٹر جمشید اور لائبریریاں کہاں گئیں؟

اچھی طرح یاد ہے کہ محلے میں کہیں کوئی چوری چکار ی کی واردات ہو جاتی تو ہمارے جیسے جاسوسوں کا گروپ اپنی تئیں اس کی تحقیقات کرتا، اندھیرے میں تیر چلائے جاتے‘ لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ کیونکہ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں ذرا جھانک کر دیکھیں تو ہماری عمر کے اُس وقت کے نوجوانوں کے لیے لابرئیری ایک بہترین وقت گزاری کا ذریعہ ہوتی تھی۔ ہر گلی محلے میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایک چھوٹی سی دکان میں کتابوں کا یہ بڑا خزانہ مل جاتا۔ جہاں آپ دو سے پانچ روپے کرایہ ادا کر کے اپنے من پسند ناول اور جریدے کے ’ایک دن کے حاکم‘ بن جاتے۔ اتفاق سے جس وقت ہمارے اندر مطالعے کی شمع روشن ہوئی تو وہ دور اشتیاق احمد کے ناولوں کا تھا۔ انسپکٹر جمشید اور کامران اور پھر شوکی سیریز کے ذہین اور غیر معمولی کردار ہوتے، محمود‘ فاروق فرزانہ یا پھر آفتاب، فرحت یاآصف ہوں، ان سب کے کارنامے پڑھ پڑھ کر ہم بھی ’چھوٹے موٹے جاسوس‘ تو بن ہی گئے تھے۔

اچھی طرح یاد ہے کہ محلے میں کہیں کوئی چوری چکاری کی واردات ہو جاتی تو ہمارے جیسے جاسوسوں کا گروپ اپنی تئیں اس کی تحقیقات کرتا، اندھیرے میں تیر چلائے جاتے‘ لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ کیونکہ کہانی اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خیر جناب عمران سیریز میں چونکہ ’بالغان‘ کے لیے کچھ مواد ہوتا‘ اسی لیے ہم جیسے ’بچوں کی پہنچ سے دور‘ رکھا جاتا۔ کیا وضع دار اور مہذبانہ دور تھا کہ لابرئیری اور بک اسٹال والا تک اسے کم عمر بچوں کے لیے ’شجر ممنوع‘ سمجھتے ہوئے مجال ہے جو جو دے دیتے ہوں۔ لڑکپن میں ہم نے دو علاقوں میں ہجرت کی اور خوش قسمتی ہی کہیے کہ وہاں جا کر ہم کسی نہ کسی طرح ’لابرئیری‘ کی کھوج میں انسپکٹر جمشید کے مجرم تلاش کرنے کی طرح کامیاب ہو ہی گئے۔

مشاہدے میں تو یہ بھی آیا کہ جب بھی ان محلوں میں کوئی ’نووارد‘ آتا تو اس کا بھی پہلا سوال یہی ہوتا کہ یہاں لابرئیری کہاں ہے؟ لابرئیری سے لائی گئی ان کتابوں، ناولوں اور جرائد کے پڑھنے کا اپنا ہی الگ نشہ یا خمار ہوتا۔ کسی نئی نویلی دلہن کی طرح ان کا خیال رکھا جاتا اور ایک ایک صفحے کو بڑے سنبھال سنبھال کر پلٹا جاتا، کہیں کوئی بدنما نشان یا دھبہ نہیں لگے، اس پر تو خاص توجہ دی جاتی۔ واپسی پر لابرئیری مالکان بھی ’کسٹم حکام‘ کی طرح ایک ایک صفحے کا اچھی طرح جائزہ لیتے۔ کہیں کوئی کاٹ چھانٹ ہوتی تو زر ضمانت کے طور پر جمع رقم سے اسے منہا کر لیا جاتا۔ عام طور پر لابرئیری کی ممبر شپ حاصل کی جاتی۔ جس کے لیے معمولی سی رقم اس لیے ضمانت کے طور پر جمع کرائی جاتی کہ کہیں کوئی رسالہ یا ناول لے کر نو دو گیارہ نہ ہو جائے۔ ہمارے ایک دوست ایسے بھی تھے جن کی عادت تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ادھار کی طرح کتاب واپس نہیں کرنی۔ کئی لابرئیریز پر ان کی انٹری بند تھی۔

اچھی خاصی تعداد میں کتابیں ان کے قبضے میں تھیں تو یار دوست ان پر یہ طنز مارتے کہ وہ کیوں نہیں گھر کے باہر 'اپنی لابرئیری' کا بورڈ لگوا دیتے۔ زمانہ طالب علمی میں ہمارے جیسے مطالعے کے ’دھتی‘ پورے ہفتے اسکول میں لابرئیری کے لیے مختص پریڈ کا انتظار کرتے۔ کیونکہ یہی وہ لمحات ہوتے جب اسکول کے کتب خزانے سے علم کے انمول اور نادر موتی ہمیں مل جاتے۔ انٹر نیٹ، اسمارٹ فون اور چینلز کی بہتات کا تو دور نہیں تھا، اسی لیے کسی بھی قسم کی معلومات، تقریر، مضمون یا حوالے کے لیے یہ سمجھیں لابریئری ’گوگل سرچ انجن‘ سے زیادہ مفید اور کارآمد تصور کی جاتی۔ گو کہ فی الذمانہ بھی شہر قائد میں کئی سرکاری اور نجی لابئرئیریز قائم ہیں لیکن ان کی خستہ حالت پر بس رحم ہی آتا ہے۔ بالخصوص سرکاری کتب خانوں میں کتب اور رسائل کی عدم دستیابی کا غم، علم کی پیاس بجھانے والوں کو سہنا پڑ رہا ہے۔ 

تعلیمی اداروں میں لابرئیریز تو ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہی ملیں گے۔ قصور نت نئی ٹیکنالوجی کا بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جب آپ کی ’فنگر ٹپس‘ پر سب کچھ ہو تو بھلا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ لابرئیری جا کر مطلوبہ کتاب یا اخبار کی تلاش میں گھنٹوں کھپائے، آن لائن بک دستیاب ہیں۔ تکیہ کیا جارہا ہے تو انٹر نیٹ پر۔۔ جہاں سے حاصل غیر مصدقہ اور بے بنیاد معلومات عام ہونے لگی ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ذرا سی تحقیق کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ سرکاری کتب خانوں کی کمی تو ہے لیکن جناب کہاں سرکار بہادر کے پاس وقت اور سرمایہ ہے جو اس پہلو پر غور کرے۔ دیار غیر میں تو لابرئیریز پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ بڑی بڑی عالی شان عمارتوں میں ہی نہیں کہیں کسی بس میں کسی گاڑی میں تو کہیں آٹو رکشا کے ذریعے گھر کی چوکھٹ پر کتابوں کا یہ کنواں خود چل کر پہنچ رہا ہے۔ اس تناظر میں ذرا جائزہ تو لیں ہمارا، سوچیں تو ضرور کہ ہمارے یہاں یہ رحجان بھی کیوں واقعی میں ’یاد ماضی‘ بنتا جارہا ہے۔

سفیان خان

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments